Unknown
۔"اوئے چل جلدی کر ورنہ وہ نکل جائے گی"۔ وہ بہت جلدی میں تھا 
۔"کون نکل جائے گی اور کہاں نکل جائے گی"۔ میںنے ارشد کی طرف دیکھا جو آج ضرورت سے زیادہ ہی بنا سنورا کھڑا تھا
۔"ارے تو پہلے اٹھ ، گاڑی نکال رستے میں تجھے بتاؤں گا۔ جلدی کر یار ورنہ ساری محنت رائیگاں جائے گی"۔ اس نے اپنے بناؤ سنگھار کا ایک دفعہ پھر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت ایک کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن ارشد میرے بچپن کا دوست تھا۔  چارو ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ہماری منزل گھر سے بمشکل دس منٹ کی ڈرائیو پہ ایک بس پوائنٹ تھا جہاں کچھ لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف جانے کے لئے بسوں کا انتظار کر رہے تھے۔صبح کا وقت تھا اوروہاں کافی رش تھا۔ ارشد گاڑی رکتے ہی باہر نکل گیا ۔وہ سیاہ نقاب میں ڈھکی چھپی ایک لڑکی تھی جو ایک طرف کھڑی شاید ارشد کا ہی انتظار کر رہی تھی کیوں کہ جونہی اس نے ارشد کو دیکھا اس کی طرف بڑھنے لگی۔وہ اسے لئے ایک قریبی کولڈ ڈرنکس پوائنٹ پہ چلا گیا جبکہ میں وہیں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ میں اس کی عادتوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور  مجھے کبھی بھی کباب میں ہڈی بننا پسند نہیں رہا۔ ان دونوں کی واپسی تقریباَ آدھے گھنٹے میں ہوئی۔ وہ لڑکی دوبارہ وہیں جا کھڑی ہوئی جہاں ہمارے آنے سے پہلے کھڑی تھی اور ہم دونوں واپس گھر کے لئے نکل پڑے۔
۔" پرسوں کی تاریخ ملی ہے یار، سالی کے پیچھے پچھلے تین ماہ سے لگا ہوا تھا لیکن یہ تو اپنے پروں پہ پانی ہی نہیں پڑنے دے رہی تھی   لیکن مییں نے بھی خود سے تہیہ کیا تھا کہ جب تک اس کے ساتھ نہیں سوؤں گا کسی اور لڑکی کا نام تک نہیں لوں گا۔ کیا لڑکی ہے یار تجھ جیسا کھٹور بھی اگر ایک بار اسے دیکھ لے نا تو قسم سے اپنی ساری انا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دے"۔ وہ حسب دستور شروع ہو گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے ایسے معاملات میں کبھی بھی کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ تاہم میں نے کبھی بھی اس کے معاملات پہ نکتہ چینی کرنے یا ناصح بننے کی کوشش نہیں کی۔ 
اگلا سارا دن ارشد کے ساتھ اسی سیاہ پوش کے لئے تحفہ خریدنے کی نظر ہو گیا۔ اس نے پورا طارق روڈ کھنگال مارااور پھر خدا خدا کر کےر ات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اسے ایک خوبصورت ساڑھی پسند آئی اور یوں میری جان اس عذاب سے چھوٹی۔
۔" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے"۔ میں جو ابھی ابھی باہر سے آیا تھااس کی آواز سن کر چونک گیا۔ بلیک سوٹ میں ملبوس وہ بہٹ خوبصورت لگ رہا تھا ۔
۔" میں نے تیار ہو کے کہاں جانا ہے"۔ میں نے ہنوز صوفے پہ اپنی ٹانگیں پسارتے ہوئے پوچھا
۔" ابے سالے بھول گیا آج ہی تو وہ خوبصورت شام اور یادگار رات ہے جب پچھلے تین ماہ سے دل میں دبی سلگتی خواہشات کی تکمیل ہونے والی ہے"۔  وق میرے سامنے صوفے پہ بیٹھ چکا تھا
۔" تو میں نے وہاں کیا کرنا ہے ۔ چابی لو گاڑی باہر کھڑی ہے اور اللہ بیلی"۔
۔" او نئیں یار آج تو تجھے میرے ساتھ آنا ہی ہو گا۔ چاہے بے شک وہاں چائے سموسے کھا کے واپس آ جانا اور گاڑی بھی لے آنا میں صبح تیکسی پہ آ جاؤں گا"۔ 
میرے کافی انکار کے باوجود وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پہ بضد تھا۔ آخر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں اس کے ہمراہ ہو لیا۔ مطلوبہ فلیٹ تک پہنچتے پہنچتے ہمیں شام کے چھ بج گئے۔ ہمارا استقبال سفید سوٹ میں ملبوس ایک خوش پوش نوجوان نے کیا ۔ وہ فلیٹ اس کے ماموں کا تھا جہاں کبھی کبھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ زندگی کے مزے لوٹنے آتا تھا۔ ابتدائی مہمان نوازی اور سلام دعا کے بعد میں نے اجازت مانگنی چاہی تو ہمارا میزبان بضد ہوا کہ کھانا کھا کے جائوں اور صنف نازک کے پہنچتے ہی کھانا لگا دیا جائے گا پھر بے شک اگر میں جانا چاہوں تو جا سکتا ہوں۔ارشد کی بھی یہی ضد تھی ۔مجبورا مجھے کچھ دیر اور وہاں رکنا تھا۔ تقریباَ بیس یا پچیس منٹ کے بعد ارشد کی گل لیلیٰ آ پہنچی اور یوں آدھا انتظار ختم ہوا تاہم ابھی آدھا انتظار باقی تھا کیوں کہ ہمارے میزبان کی گل لیلیٰ کی آمد ابھی باقی تھی۔ 
۔" دراصل میری دوست ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور گھر میں بھائی کی موجودگی میں اس کا نکلنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ مہینے میں بمشکل دو چار بار ہی مل پاتے ہیں جب کبھی اس کے بھائی کو کسی کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑے"۔ جب انتظار کی گھڑیاں کچھ لمبی ہوئیں تو ہمارے میزبان نے اپنی دوست کی دیری کی معذرت خواہانہ انداز میں   وضاحت کی۔اور ساتھ ہی موبائل پہ رابطے کی کوشش بھی جو پہلی ہی بار میں بارآور ثابت ہوئی اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا آخری مہمان بس چند منٹوں میں پہنچنے ہی والا ہے۔ 
ارشد کی ابھی سے چھیڑ چھاڑ شروع تھی اور جس محفل کا ہم حصہ تھے اس کا مقصد ہی ایسی چھیڑ چھاڑ کی انتہا تھی۔ پھر  کچھ دیر یونہی ہنسی مزاق اور چھیڑ چھاڑ کی نظر ہو گئےجب اطلاعی گھنٹی کی خوبصورت آواز سنائی دی۔ہمارا آخری مہمان بھی پہنچ چکا تھا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی ہمارا میزبان کمرے سے باہر نکل گیا۔ ارشد ابھی بھی اسی مہ جبیں کے ساتھ سر  مستیوں میں مصروف تھا اس کا غالباَ داؤ نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ وہیں اس کے ساتھ محبت کی انتہاؤں کو چھو لیتا۔اسی دوران مجھے باہر سے ہلکی سی ہنسی اور "چھوڑو اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو ساری رات باقی ہے " کی دھیمی سی آواز سنائی دی ۔ ہمارا میزبان غالباَ اپنی دوست سے انتظار کا جرمانہ وصول کر رہا تھا۔
۔" دیکھا کتنی بے صبری ہے محبت میں پتا مہیں تو کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ میں تو کہتا ہوں آج یہیں رک جا ہمارے ساتھ۔ دونوں میں جو پسند آئے وہ تمہاری اور چاہوں تو دونوں ہی تمہاری ۔ہم محبت میں مل بانٹ کر کھانے کے قائل ہیں۔ کیوں جان"۔آخر میں اس نے اپنے پہلو میں بیٹھی آتش دو ناد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جس نے ایک دلربانہ انداز میں سر سے پاؤں تک مجھے غور سے دیکھا جیسے قصائی قربانی سے پہلے بکرے کو پرکھتے ہوئے دیکھتا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں اس کی اس بات کو  کوئی جواب دیتا ہمارا میزبان اپنے آخری مہمان کےہمراہ کمرے میں داخل ہوا ۔ اسی پل میں نے ارشد کو انتہائی تیزی سے صوفے سے اٹھتے ہوئے دیکھا اور میں بے اختیار پیچھے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ہمارا آخری مہمان کوئی اور نہیں ارشد کی بہن ردا ناز تھی۔

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.