Unknown

آپس میں باہم میل ملاقات

سلام کہنا
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں کونسا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپؑ نے ارشاد فرمایا 
۔" کہ تو کھانا کھلائے اور ہر جاننے اور نہ جاننے والے کو سلام کہے "۔
بخاری ومسلم
ایک آدمی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا السلام علیکم۔ تو آپؑ نے اس کا جواب دیا ، پھر وہ بیٹھ گیا۔ آپؑ نے فرمایا "اس کیلئے دس نیکیاں ہیں" ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمةاللہ ۔ تو آپؑ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپؑ نے فرمایا "اس کیلئے بیس نیکیاں ہیں"۔ پھر ایک اور آدمی آیااور اس نے کہا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تو آپؑ نے اس کا جواب دیاپھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپؑ نےفرمایا "اس کیلئے تیس نیکیاں ہیں‘‘۔
ابو داؤد ، ترمذی
اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ! جو شخص پورا سلام نہیں کہتا وہ کتنا زیادہ اجر ضائع کر بیٹھتا ہے۔ اگر وہ پورا سلام ( السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ) کہے تو اسے تیس نیکیاں ملتی ہیں اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔ گویا ایک مرتبہ پورا سلام کہنے سے ۳۰۰ نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ عطا کرسکتا ہے۔ لہذا اپنی زبان کو پورا سلام کہنے کا عادی بنائیں تاکہ اتنے بڑا اجروثواب سے مستفیذ ہو سکیں۔
اور مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ سلام کہتا ہے،جب مسجد میں داخل ہوتومتعدد نمازیوں کو سلام کہنے کا موقعہ ملتا ہے ، اسی طرح جب ان سے جدا ہوتب بھی انھیں سلام کہے ، اسی طرح گھر میں آٓتے ہوئے اور پھر باہر جاتے ہوئے بھی سلام کہے ۔ ان تمام موقعوں پر اگرپورا سلام کہا جائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا زیادہ ثواب صرف اسی سلام کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے
اور یہ بات نہ بھولیں کہ جس طرح ملاقات کے وقت سلام کہنا مسنون ہے اسی طرح جدائی کے وقت بھی پورا سلام کہنا سنت ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے  ’’ تم میں سے کوئی شخص جب کسی مجلس میں جائے تو سلام کہے اور جب وہاں سے جانا چاہے تو بھی سلام کہے کیونکہ ملاقات جدائی سے زیادہ سلام کاحق نہیں رکھتی"۔
 ابو داؤد ، ترمذی
انسان اگر ہر نماز کے وقت سلام کا اہتمام کرے تو وہ دن اور رات میں بیس مرتبہ سلام کہہ سکتا ہے۔ پانچ مرتبہ گھر سے جاتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد سے نکلتے ہوئے اور پانچ مرتبہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے ۔ جبکہ چوبیس گھنٹوں میں انسان کو کئی اور مقاصد کیلئے بھی گھر سے باہر جانا اور واپس آنا پڑتا ہے اور کئی لوگوں سے ہمکلام ہونے کا بھی موقعہ ملتا ہے اور کئی اور احباب سے فون پر بھی اس کا رابطہ ہوتا ہے توایسے تمام مواقع پر پورا سلام کہہ کر وہ بہت زیادہ نیکیاں کما سکتا ہے۔
چہرے پر مسکراہٹ لانا
ارشاد نبویؐ ہے" نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو ، خواہ تم اپنے بھائی کو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہی ملو"۔
مسلم
مصافحہ کرنا
ارشاد نبویؐ ہے"دو مسلمان ملاقات کے وقت جب مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں"۔
ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ
امام نووی ؒکہتے ہیں کہ ہر ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا مستحب ہے
اچھی بات کرنا
فرمان الٰہی ہے :’’ وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ‘‘۔
الإسراء : ۵۳
۔"اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں،کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"۔
اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے "اچھی بات کرنا صدقہ ہے"۔
بخاری ،مسلم
اچھی بات میں ذکرکرنا، دعا کرنا، سلام کہنا،برحق تعریف کرنا، نیکی کا حکم دینا، سچ بولنااور نصیحت کرنا وغیرہ سب شامل ہیں۔
اچھی بات انسان پر جادو جیسا عمل کرتی ہے اور اسے راحت واطمینان پہنچاتی ہے۔
اچھی بات اِس کی دلیل ہوتی ہے کہ اس انسان کا دل نورِ ایمان اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے۔

لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اچھی بات کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے ۔ اپنی بیوی ، اپنی اولاد ، اپنے پڑوسی ، اپنے دوست ، اپنے ماتحت ملازمین اور الغرض ان تمام لوگوں کے ساتھ اچھی بات کو معمول بنائے جن کے ساتھ اس کا دن اور رات میں کئی مرتبہ میل ملاپ ہوتا ہے۔
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.