Unknown

اسلام میں تجدید دین کا تصور

اسلام تمام زمانوں، مخلوقات اور اس روزِ محشر تک کیلئے جس کے متعلق قران پاک وضاحت کے ساتھ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے مکمل ضابطہ حیات ہے۔میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ بات نہیں کہ رہابلکہ حقیت یہ ہے کہ آج کے انسان کا مطالعہ، سائنسی تحقیق و جستجو، غوروفکر اور درپیش مسائل کے تکمیلی حل کی تگ و دو نے یہ بات اسے بخوبی باور کرا دی ہے کہ درحقیقت اسلامی نظریہ حیات ہی دور حاضر کی جہتوں کی تکمیلی شکل ہے۔قران کو کسی تفسیر کی ضرورت نہیں ہے کہ قران خود اپنا استاد ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے حالات و واقعات، تعلیمی و تکمیلی شعور، نظریہ زندگی اور نظریہ سائنس میں اور آج 24 اگست 2012 کو جب میں یہ مکالہ لکھنے بیٹھا ہوں میں مندرجہ بالا تمام معاملات و اشکالات میں کافی فرق ہے۔ پھر ایک اصطلاح جو زبان زد عام ہے "تجدید دیں" کی کیا شکل اورحالت ہے۔تھوڑا سا عربی گرامر دیکھتے ہیں
 'تجدد' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ 'ج ۔ د ۔ د' ہے۔ اس مادے سے عربی زبان میں دو اہم الفاظ استعمال ہوتے ہیں' ایک 'تجدد' اور دوسرا ' تجدید' ۔ 'تجدد' باب تفعّل سے مصدر ہے اور اس مصدر سے اسم الفاعل 'متجدد' بنتا ہے جبکہ 'تجدید' باب تفعیل سے مصدر ہے اور اس کا اسم الفاعل 'مجد ِد' استعمال ہوتا ہے۔ معاصر مذہبی اردو لٹریچر میں 'تجدد' ایک منفی جبکہ 'تجدید' ایک مثبت اصطلاح کے طور پر معروف ہے۔باب تفعیل سے 'تجدید' کا لفظ متعدی معنی میں مستعمل ہے اور 'جدّد الشیئ'  کا معنی ہو گا کسی شے کو نیا کرنا ۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس لفظ میں 'تاء' طلب کے معنی میں ہے' یعنی کسی چیز کو نیا کرنے کی خواہش رکھنا۔
مجدد کے متعلق رائے عامہ کا عمومی نظریہ انتہائی مہلک ہے۔ عمومی رجحان یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو دین اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کرے یا نکات و دلائل کی بھیڑ بھاڑ میں کوئی نیا نظریہ نہ صرف سامنے لائے بلکہ انتہائی تیزی سے اپنے اس نئی ایجاد کو عوام الناس میں رائج کر نے میں کامیاب ہو جائے وہ مجدد کہلاتا ہے۔ خصوصاَ وہ لوگ جو مسلمانوں کی خستہ حالی یا زبوں حالی میں انہیں دنیا کے مروجہ نظاموں کی مدد سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں یا طاقتور قوموں یا نظاموں سے انحطاط کر کے مسلمان قوم کے سہارے کا سبب بنتے ہیں اور دینِ اسلام کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بر سر اقتدار جاہلیت سےربط جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں مجدد کہا جاتا ہے۔یہ مجدد نہیں بلکہ متجدد ہیں اور ان کا کارنامہ تجدد ہے جبکہ مجدد کا کام تجدید ہے نہ کہ تجدد۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں'' تجدید اس وقت ہوتی ہے جبکہ کسی شے کے آثار مٹ جائیں۔ یعنی جب اسلام غریب اور اجنبی ہو جائے تو پھر اس کی تجدید ہوتی ہے''۔ (مجموع الفتاویٰ' ج١٨' ص٨)۔
جب زمان و مکاں جہالت کی سیاہی میں تر بتر ہو جاتے ہیں تب مجدد' دین اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے جہالت اور سیاہی کے ان پردوں اور حجابات کو اٹھاتا ہے اور دین کا حقیقی رنگ واضح کرتا ہے۔ پس تجدید سے مرادکسی شے کی اصلاح' اس میں اضافہ یا تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پہلے سے موجود ایک شے پر پڑے ہوئے پردوں یاحجابات کورفع کرناہے۔
ایک بات بالکل ٹھوس اوراٹل ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے وقت اور بعد میں خلفائے راشدین کے دور میں دین اسلام اپنی حقیقی صورت میں موجود تھا' اس کے بعدرفتہ رفتہ لوگوں کے عقیدوں میں بگاڑ آنا شروع ہو گیا اور بدعتی فرقوں مثلاً خوارج' معتزلہ' جہمیہ' اور کلامی گروہوں نے بہت سے باطل نظریات اور تصورات کو دین اسلام کے نام پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ائمہ و مجتہدین نے ان باطل افکار و نظریات کی شد و مد سے تردید کی اور دین کے اس حقیقی اور صحیح تصور کو واضح کیا جس پر ان گمراہ فرقوں کی کج بحثیوں کے نتیجے میں حجابات پڑ گئے تھے۔ اسی فعل کا نام تجدید ہے اور اس کے فاعل کو' مجدد' کہتے ہیں۔ 'تجدید ِعہد' کی اصطلاح عربی زبان میں معروف ہے اور اس سے مراد کوئی نیا عہد باندھنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود عہد کو پختہ اور نیا کرنا ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی کے بقول تجدید سے مراد کسی شے کو اس کی اصل حالت پر لوٹانا ہے پس اسلام کی تجدید سے مراد کوئی نیا اسلام پیش کرنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود اسلام پر گمراہ اور بدعتی فرقوں کی طرف سے ڈالے گئے حجابات کو رفع کرتے ہوئے اسلام کو از سر ِنو نیا کرنا ہے۔ اللہ کے رسولؑ کا ارشاد ہے
 
ِانَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں اس اُمت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجتے ہیں جو اُمت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے 
 سنن ابی داود' کتاب الملاحم' باب ما یذکر فی قرن المائة 
اس روایت کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے
 
اس کے برعکس باب تفعّل سے 'تجدد' کا لفظ لازمی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ' تجدّد الشّیئ'  کا معنی ہو گا :کسی شے کا نیا ہو جانا۔ عربی زبان میں'تجدّد الضّرع' کا معنی ہے: جانور کے دودھ کا چلے جانا۔ جب جانور کا پچھلا دودھ چلا جائے گا تو اب نیا دودھ آئے گا اور اسی کو 'تجدّد الضرع' کہا گیا ہے ۔ پس تجدد کا معنی ہے پہلے سے موجود کسی شے کا غائب ہو جانا اور اس کی جگہ نئی چیز کا آجانا۔ پہلے والا دودھ دوہنے کے بعد جانور کے تھنوں میں جو نیا دودھ آئے گا' وہ نیا تو ہے لیکن پہلے والا نہیں ہے۔ اسلام کے تجدد سے مراد یہ ہو گی کہ پہلے سے موجود اسلام غائب ہوجائے اور اس کی جگہ نیا اسلام آ جائے ۔
 
الاٰخر 'تجدید' دین اسلام کو جاہلانہ رسم ورواج اور حجابات سے نکال کر اسے اس کی اصل شکل میں رائج کرنے کا نام ہے اوریہ ایک مثبت عمل ہے اور دین میں مطلوب ہے جبکہ تجدد ایک منفی اصطلاح ہے جو دین کے اندر کسی نئی شے کو پیدا کرنے کا نام ہے اوردین میں ایک ناپسندیدہ اور ظالمانہ فعل ہے۔
 
واللہُ اعلم بِاثواب
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.