Unknown

میں جب مسجد سے نکل کر گھر کے لیے روانہ ہونے لگی تو ایک بہن نے گھر تک میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ راستے میں اس نے ایک ایسی بات بتائی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
اس بہن نے بتایا، "میرا ایک بھانجا ہے جو پانچ سال سے کچھ ہی بڑا ہے۔ وہ میزوں، دیواروں اور دروازوں پر لکیریں بناتا رہتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ اس حرکت سے باز آ جائے، نرمی و سختی سے سمجھایا، مار پیٹ بھی کی مگر بے سود۔ جب میں نے آپ کے درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کی اور اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد
وَاِن مِّن شَيْءٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَھُونَ تَسْبِيحَھُمْ (بنی اسرائیل 44:17)
ہمیں عمل کرنے کے لیے تفویض ہوا تو میں‌ اس آیت کو دہراتی رہتی تھی۔ مجھے اس بات کا بے حد اشتیاق تھا کہ میرے حواس اور جوارح میں سے کوئی ایک اس پر کسی طرح عمل کرئے، اس کے مطابق میری سوچ بنے، اس کے مطابق میرے اعضائے بدن کام کریں۔
"میں نے اپنے بھانجے کو دیکھا کہ وہ ایک نئی میز پر ہر طرف سے مارکر سے لائنیں لگا رہا ہے۔ اس نے میز پر لکیریں ہی لکیریں بنا دیں۔ میں نے بھانجے کو اپنے پاس بلا کر بڑے پیار اور سکون سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟ اس نے سخت حیرانی کے ساتھ میرے طرف دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "سچ؟"میں نے اسے بتایا، جی ہاں، یہ بات ہمیں اللہ نے بتائی ہے، جو ہر چیز کو جانتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ تم میز کو کتنا گندا کر دیا ہے؟"ضرور میز غصے میں ہے اور یہ اللہ کے حضور تمہارے خلاف شکایت کرئے گی۔"
"بچے نے میری طرف دیکھا، پھر میز کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا کان میز سے لگا کر بولا، "مگر مجھے تو کوئی آواز نہیں آ رہی۔ میں تو کچھ بھی نہیں سن رہا۔۔"میں نے کیا، "مجھے معلوم ہے، یہ بات اللہ پاک نے بتا دی ہے کہ ہم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔"بچہ تھوڑی دیر ٹھہرا رہا۔ پھر اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ میز صاف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ لیکن جوش و جذبے سے وہ میز صاف کر رہا تھا۔ اس کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی تا کہ وہ جلد از جلد میز کو مارکر کے نشانات سے صاف کر دے۔ پھر اس نے ایک اور کپڑا لیا اور دوسری نشان زدہ چیزوں کو صاف کرنے لگا۔ میں نے کہا، اب میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ بولا، "ہاں خالہ، آپ میری مدد کریں تاکہ ہم تمام چیزوں سے نشانات صاف کر دیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں تسبیح کرتی ہیں۔"
"شام کو اس کی والدہ ڈیوٹی سے واپس آئیں تو ان سے لپٹ گیا۔ کہنے لگا، "امی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟"اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی امی نے جواب دیا، "ہاں بیٹا، کیوں نہیں۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔"میرے بھانجے نے اب پہلے میری طرف دیکھا اور پھر کمرے کی ہر چیز کی طرف دیکھا۔ وہ جلد ہی گہری نیند سو گیا۔ اس دن کے بعد اس نے سوائے لکھنے کے مخصوص کاغذ کے سوا کبھی کسی چیز پر لکیریں نہیں لگائیں۔ اگ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے کہتا رہتا ہے کہ میں تسبیح کرتا ہوں۔ ایک بار میں نے خود سنا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے کہہ رہا تھا، "مجھے مت مارو، میں تسبیح کرتا ہوں۔"تو مجھے بہت ہنسی آئی اور میں شدتِ مسرت سے رو پڑی۔"
قرآنی آیات پر عمل کی بہت ضرورت ہے۔ قرآن مجید اللہ نے اتارا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ جس بات کو ایک پانچ سال کے بچے نے سمجھ لیا، نہ جانے بڑی عمر کے لوگ اسے کب سمجھیں گے؟
  مندرجہ بالا سطور "محمد ظہیر الدین بھٹی" کی کتاب "قرآن پر عمل" سے ماخوز ہیں۔ دور حاضر میں ہم مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو کتاب مقدس سمجھ کر یا تو لحافوں میں لپیٹ کر زینت طاق کر دیا یا پھر اسے بس رٹے اور پڑھنے تک ہی محدود کر دیا۔ اس کی سمجھ بوجھ اس کا مقصد آمد دور کہیں ماضی کی گرد میں گم ہو کر رہ گیا۔ "قرآن پر عمل" آپ اردو ویب ڈیجیتل لائبریری پہ آن لائن بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یوآرایل درج ذیل ہے
میں نے اگرچہ ابھی تک مکمل کتاب کی ورق گردانی نہیں کی تاہم جتنی سطور بھی زیر نظر آئیں انہیں مفید سمجھتے ہوئے آپ حضرات کے لئے اس کتاب کو بہترین پایا اسی لئے شیئر کر دیا کہ شاید کسی کو تو سمجھ آ جائے۔اسی کتاب کی کچھ سطور کے ساتھ آج کی حاضری کو اختتام پذیر کرتا ہوں۔
ایک خدا ترس خاتون نے ایک بچی کو اپنے گھر میں رکھا۔ اس بچی کے ماں باپ غریب تھے جو اس کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر تھے۔ اس خاتون نے بچی کو اپنے گھر میں ہر طرح سے آرام سے رکھا۔ گھر میں خدمت کے لیے خادمہ پہلے سے موجود تھی۔ بچی کو پوشاک، خوراک اور تعلیم سبھی سہولتیں میسر تھیں، وہ لکھ پڑھ گئی، بڑی ہو گئی تو خاتون نے پہلی خادمہ کو فارغ کر دیا اور صبح سویرے نئی خادمہ کو سب کام ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیئے۔ بچوں کو نہلانا، کپڑے استری کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ امیر عورت یہ کاغذ‌ دے کر مطمئن ہو گئی۔ جب وہ دوپہر کے وقت گھر واپس آئی تو دیکھا کہ نئی نوکرانی نے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ بلا کر پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے آپ کی تحریر کو بڑے احترام سے چوما ہے اور اسے بار بار پڑھتی رہی ہوں حتیٰ کہ یہ تحریر مجھے زبانی یاد ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر امیر خاتون کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ اس جواب پر اس نوکرانی کو تنخواہ، پوشاک، خوراک اور رہائیش مہیا کرئے گی یا ناراض ہو کر اسے گھر سے باہر نکال دے گی؟ کیا ہم مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ طرزِ عمل اس نوکرانی جیسا نہیں ہے؟ ہم قرآنی آیات پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ کیا اس صورت میں ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟

0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.