Unknown

میں جب مسجد سے نکل کر گھر کے لیے روانہ ہونے لگی تو ایک بہن نے گھر تک میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ راستے میں اس نے ایک ایسی بات بتائی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
اس بہن نے بتایا، "میرا ایک بھانجا ہے جو پانچ سال سے کچھ ہی بڑا ہے۔ وہ میزوں، دیواروں اور دروازوں پر لکیریں بناتا رہتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ اس حرکت سے باز آ جائے، نرمی و سختی سے سمجھایا، مار پیٹ بھی کی مگر بے سود۔ جب میں نے آپ کے درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کی اور اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد
وَاِن مِّن شَيْءٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَھُونَ تَسْبِيحَھُمْ (بنی اسرائیل 44:17)
ہمیں عمل کرنے کے لیے تفویض ہوا تو میں‌ اس آیت کو دہراتی رہتی تھی۔ مجھے اس بات کا بے حد اشتیاق تھا کہ میرے حواس اور جوارح میں سے کوئی ایک اس پر کسی طرح عمل کرئے، اس کے مطابق میری سوچ بنے، اس کے مطابق میرے اعضائے بدن کام کریں۔
"میں نے اپنے بھانجے کو دیکھا کہ وہ ایک نئی میز پر ہر طرف سے مارکر سے لائنیں لگا رہا ہے۔ اس نے میز پر لکیریں ہی لکیریں بنا دیں۔ میں نے بھانجے کو اپنے پاس بلا کر بڑے پیار اور سکون سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟ اس نے سخت حیرانی کے ساتھ میرے طرف دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "سچ؟"میں نے اسے بتایا، جی ہاں، یہ بات ہمیں اللہ نے بتائی ہے، جو ہر چیز کو جانتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ تم میز کو کتنا گندا کر دیا ہے؟"ضرور میز غصے میں ہے اور یہ اللہ کے حضور تمہارے خلاف شکایت کرئے گی۔"
"بچے نے میری طرف دیکھا، پھر میز کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا کان میز سے لگا کر بولا، "مگر مجھے تو کوئی آواز نہیں آ رہی۔ میں تو کچھ بھی نہیں سن رہا۔۔"میں نے کیا، "مجھے معلوم ہے، یہ بات اللہ پاک نے بتا دی ہے کہ ہم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔"بچہ تھوڑی دیر ٹھہرا رہا۔ پھر اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ میز صاف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ لیکن جوش و جذبے سے وہ میز صاف کر رہا تھا۔ اس کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی تا کہ وہ جلد از جلد میز کو مارکر کے نشانات سے صاف کر دے۔ پھر اس نے ایک اور کپڑا لیا اور دوسری نشان زدہ چیزوں کو صاف کرنے لگا۔ میں نے کہا، اب میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ بولا، "ہاں خالہ، آپ میری مدد کریں تاکہ ہم تمام چیزوں سے نشانات صاف کر دیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں تسبیح کرتی ہیں۔"
"شام کو اس کی والدہ ڈیوٹی سے واپس آئیں تو ان سے لپٹ گیا۔ کہنے لگا، "امی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟"اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی امی نے جواب دیا، "ہاں بیٹا، کیوں نہیں۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔"میرے بھانجے نے اب پہلے میری طرف دیکھا اور پھر کمرے کی ہر چیز کی طرف دیکھا۔ وہ جلد ہی گہری نیند سو گیا۔ اس دن کے بعد اس نے سوائے لکھنے کے مخصوص کاغذ کے سوا کبھی کسی چیز پر لکیریں نہیں لگائیں۔ اگ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے کہتا رہتا ہے کہ میں تسبیح کرتا ہوں۔ ایک بار میں نے خود سنا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے کہہ رہا تھا، "مجھے مت مارو، میں تسبیح کرتا ہوں۔"تو مجھے بہت ہنسی آئی اور میں شدتِ مسرت سے رو پڑی۔"
قرآنی آیات پر عمل کی بہت ضرورت ہے۔ قرآن مجید اللہ نے اتارا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ جس بات کو ایک پانچ سال کے بچے نے سمجھ لیا، نہ جانے بڑی عمر کے لوگ اسے کب سمجھیں گے؟
  مندرجہ بالا سطور "محمد ظہیر الدین بھٹی" کی کتاب "قرآن پر عمل" سے ماخوز ہیں۔ دور حاضر میں ہم مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو کتاب مقدس سمجھ کر یا تو لحافوں میں لپیٹ کر زینت طاق کر دیا یا پھر اسے بس رٹے اور پڑھنے تک ہی محدود کر دیا۔ اس کی سمجھ بوجھ اس کا مقصد آمد دور کہیں ماضی کی گرد میں گم ہو کر رہ گیا۔ "قرآن پر عمل" آپ اردو ویب ڈیجیتل لائبریری پہ آن لائن بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یوآرایل درج ذیل ہے
میں نے اگرچہ ابھی تک مکمل کتاب کی ورق گردانی نہیں کی تاہم جتنی سطور بھی زیر نظر آئیں انہیں مفید سمجھتے ہوئے آپ حضرات کے لئے اس کتاب کو بہترین پایا اسی لئے شیئر کر دیا کہ شاید کسی کو تو سمجھ آ جائے۔اسی کتاب کی کچھ سطور کے ساتھ آج کی حاضری کو اختتام پذیر کرتا ہوں۔
ایک خدا ترس خاتون نے ایک بچی کو اپنے گھر میں رکھا۔ اس بچی کے ماں باپ غریب تھے جو اس کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر تھے۔ اس خاتون نے بچی کو اپنے گھر میں ہر طرح سے آرام سے رکھا۔ گھر میں خدمت کے لیے خادمہ پہلے سے موجود تھی۔ بچی کو پوشاک، خوراک اور تعلیم سبھی سہولتیں میسر تھیں، وہ لکھ پڑھ گئی، بڑی ہو گئی تو خاتون نے پہلی خادمہ کو فارغ کر دیا اور صبح سویرے نئی خادمہ کو سب کام ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیئے۔ بچوں کو نہلانا، کپڑے استری کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ امیر عورت یہ کاغذ‌ دے کر مطمئن ہو گئی۔ جب وہ دوپہر کے وقت گھر واپس آئی تو دیکھا کہ نئی نوکرانی نے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ بلا کر پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے آپ کی تحریر کو بڑے احترام سے چوما ہے اور اسے بار بار پڑھتی رہی ہوں حتیٰ کہ یہ تحریر مجھے زبانی یاد ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر امیر خاتون کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ اس جواب پر اس نوکرانی کو تنخواہ، پوشاک، خوراک اور رہائیش مہیا کرئے گی یا ناراض ہو کر اسے گھر سے باہر نکال دے گی؟ کیا ہم مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ طرزِ عمل اس نوکرانی جیسا نہیں ہے؟ ہم قرآنی آیات پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ کیا اس صورت میں ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟

Unknown
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ملک پہ ایک نیک اور صالح بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک دفعہ دور کے ایک علاقے سے کچھ لوگ ایک وفد کی صورت اس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے جب ان کی آمد کا مقصد پوچھا تو انہوں نے نہایت ادب سے عرض کی کہ اے بادشاہ سلامت ہماری دو بستیاں ہیں جن کے درمیان ایک دریا حائل ہے جس سے ہمیں دو طرفہ آمدورفت میں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاگر حضور ہم پہ نظر عنایت کرتے اور ہمیں اس کے اوپر ایک پل تعمیر کرا دیتے تو ہمیں اس تکلیف سے نجات مل جاتی۔ بادشاہ نےاسی وقت محکمہ تعمیرات کو حکم صادرکیا کہ مذکورہ مقام پہ فورا ایک پل تعمیر کیا جائے۔بادشاہ کا حکم تھا فورا کام شروع کر دیا گیا اور جلد ہی ایک نہایت شاندار پل تعمیر ہو گیا۔ وہاں کے لوگوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اورخوب دعائیں دی۔ پل کی تعمیر کو ابھی بس چند ہی ماہ گزرے تھے کہ مشیروں کے ایک ٹولے نے بادشاہ سلامت کو رائے دی کہ حضور اس پل کے ایک طرف سےآمدورفت پہ ٹیکس لگا دیا جائےتا کہ اس ٹیکس کو اسی طرح کے مذید کاموں  پہ استعمال کیا جا سکے۔  بادشاہ کو یہ مشاورت پسند نہ آئی لیکن مشیروں اور اہل دربار کی بار بار تکرار سےتنگ آ کر اس نے پل کے ایک طرف کی آمدورفت پہ بہت ہی قلیل سا ٹیکس لگا دیا۔ بادشاہ کاخیال تھا کہ اس سے وہاں کے لوگ چیخ و پکار کریں گے اور میرے پاس آئیں گے اور ان کی آمد کو جواز بنا کے میں ٹیکس معاف کر دوں  گا لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو بادشاہ قدرے متعجب ہوا۔  کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو وزراء نے پل کے دوسری طرف سے بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی۔ اب کی بار بادشاہ کو پورا یقین تھا کہ وہ لوگ میرے پاس دہائی لے کر ضرور آئیں گے لیکن اسے ایک دفعہ پھر تعجب و حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پل کے دونوں اطراف کی آمدورفت پہ ٹیکس لاگو ہو چکا تھا ۔ کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو درباری امراء نے اس ٹیکس میں اضافے کی بات شروع کی۔ بادشاہ اس بات پہ رضامند نہیں تھا لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ ٹیکس میں اضافے سے ان لوگوں کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے بادشاہ نے ٹیکس میں اضافے کا اعلان کر دیا۔  لیکن اب کی بار بھی وہ بے حس لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ جب بادشاہ نے ان کی یہ بے حسی دیکھی تو اسے سخت تعجب کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا اور اس نے کوتوال کو حکم دیا کہ پل کے دونوں طرف کچھ سپاہی تعینات کئے جائیں جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جوتے ماریں۔ بادشاہ کے حکم کی فوری تعمیل کر دی گئی اور پل کے دونوں اطراف سپاہی تعینات کر دئے گئے جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جاتے رسید کرتے۔ اب کی بار بادشاہ کا خیال تھا کہ وہ لوگ ضرور چیخ و پکار کریں گے لیکن اس دفعہ بھی بادشاہ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔  بادشاہ نے غصے میں نہ صرف یہ کہ ٹیکس دوگنا کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ ساتھ ساتھ جوتوں کی تعداد بھی بڑھا دی۔ کچھ دن بعد اسے یہ اطلاع ملی کہ پل والے علاقے سے کچھ افراد پہ مشتمل وفد بادشاہ سلامت کی خدمت اقدس میں حاضری کا طلبگار ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔ اسنے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ جب وہ لوگ ٹیکس کی بابت اور جوتوں کی بابت معافی کی بات کریں گے تو میں ان کا ٹیکس اور جوتوں کی سزا دونوں معاف کر دوں  گا۔ کچھ ہی لمحوں بعد لوگوں کا ایک وفد دربا میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی خدمت اقدس میں نہایت ادب و احترام سے سلام عرض کیا۔  بادشاہ سلامت نے جب آنے کا مدعا چاہا تو ان لوگوں نے عرض کی 
۔" بادشاہ سلامت ہم آپ کے پاس یہ عرضی لے کر آئیں ہیں کہ پل پر تعینات سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ جوتے مارنے میں جلدی ہو سکے اور جوتوں کے انتظار میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ نہ ہو"۔


 آج بھی وہی بادشاہ ہے، وہی پل ہے اور وہی ٹیکس میں اضافےہی اضافے اور وہی مہنگائی کے جوتوں کی اضافی تعداد جس میں ہر دو چار ماہ کے بعد اضافہ کر دیا جاتا ہے اور سب سے آخر میں وہی ہم بے حس کے بےحس اور بادشاہ کا وہی غصیلا حکم "اور جوتے مارو انہیں کہ اسی لائق ہیں یہ"۔
Unknown
جنگل کا باشاہ شیر حسب دستور دربار لگائے انتہائی طمطراق سے اپنے تخت پہ جلوہ افروز تھا۔ وزیران و مشیران کا ایک جمگھٹا بادشاہ سلامت کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ جنگل کے عمومی و خصوصی مسائل زیر بحث تھے کہ اچانک داروغہ دربار نے کسی بندر کے آنے کی اطلاع دی۔بادشاہ کے وزراء نے ایک اجتماعی ناگوای سے داروغہ دربار کو دیکھا۔ انہیں شاید اس ناعاقبت اندیش کی یہ ادا بری لگی تھی کہ وہ سب انتہائی اہم معاملات پہ غوروفکر میں مصروف تھے جبکہ داروغہ کو ایک بندر کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ تاہم بادشاہ سلامت کے روبرو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے سارے چپ ہی رہے۔
۔"کون ہے وہ اور کیا چاہتا ہے"۔ شیر  یعنی بادشاہ سلامت نے انتہائی سخت گرجدار آواز میں پوچھا
۔"جناب انتہائی خستہ حال ایک غریب بندر ہے کسی معاملے میں بادشاہ سلامت کی مدد مانگنے آیا ہے"۔ داروغہ نے انتہائی ادب سے گوش گزار کیا
۔"لیکن تمہیں پتا نہیں تھا کہ ہم انتہائی اہم ملکی مشاورت میں مصروف ہیں تم نے اسے رفع دفع کر دینا تھا"۔ باشاہ کا ایک وزیر انتہائی نخوت سے بولا
۔"حضور بالکل معلوم تھا لیکن اس کی کیفیت و حالت دیکھ کر مجھے اس پہ ترس آ گیا اور اسے بے مراد بھیجنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ "۔ داروغہ دربار نے ایک بار پھر ادب سے جواب دیا
۔" ٹھیک ہے اندر بھیجو اسے لیکن اسے سمجھا دینا کہ ہمارا وقت کتنا قیمتی ہے (اور وہ کتنا بے قیمت ہے) بات مختصر اور جامع کرے تا کہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو"۔ بادشاہ سلامت نے گویا احسان عظیم کیا۔ داروغہ ادب سے سلام کہتا باہر نکل گیا اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک بندر انتہائی خستہ حالت، بکھرےبال اور پریشان چہرے کے ساتھ دربار عالی میں حاضر ہو۔ اس کے چہرے اور لباس و حالت کو دیکھ کر تمام درباریوں کے چہروں پہ پڑا ناگواری کا احساس اور شدید ہو گیا۔ بادشاہ جو نووارد کو غور سے دیکھ رہا تھا انتہائی رعب و دبدبے سے گویا ہوا
۔" کہو کیا کہنا ہے اور یاد رکھو بات جامع اور مختصر ہو"۔
۔" حضور۔۔ میرا بھرا پرا خاندان ہے۔ اور ہم سب ایک ہی جگہ ایک ہی چھت تھلے انتہائی خوشی و راحت سے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ سبھی خوش و خرم تھے اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد بھی کیا کرتے تھے ۔پھر اچانک یوں ہوا کہ ہمارے گھر کا سکون آہستہ آہستہ جانے لگا ایک عجیب سی سرد مہری دلوں میں آگئی۔ہمارے درمیاں بظاہر کوئی دشمنی نہیں ہے کوئی اختلاف نہیں ہے پھر بھی دل ایک دوسرے سے بیزار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بڑی کوشش کی کہ اس منفی پہلو کی وجہ کا پتا لگایا جا سکے لیکن ہم سب ناکام رہے آخر مجبورا میں حضور کی خدمت اقدس میں یہ درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آپ اپنی طاقت و عقلمندی اور دور اندیشی سے اس معاملہ کا کوئی حل نکالیں تا کہ ہمارے گھر کا سکون دوبارہ بحال ہو سکے"۔ بندر کا دکھ اس کے لہجے سےعیاں تھا۔ اپنی تکلیف بادشاہ سلامت کے حضور گوش گزار کرنے کے بعد وہ نہایت امید  بھری نظروں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھنے لگا۔بادشاہ سلامت کچھ دیر تو معاملے کو سمجھنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے اور جب کوئی بات پلے نہ پڑی تو اس معاملے کو وزیر باتدبیر کے سپرد کرنے کا سوچا۔
۔"وزیر محترم "۔
۔" جی حضور"۔ وزیر اعظم دست بدستہ کھڑے ہو گئے۔
۔" آپ ایسا کریں ایک کمیشن بنائیں جو معاملے کے تمام پہلوؤں کی مکمل چھان بین کرے اور پھر ایک تفصیلی رپورٹ آپ کے گوش گزار کرے تا کہ اس غریب بندر کے مسئلے کا مناسب حل نکالا جا سکے"۔
۔" بہت اچھا اور عمدہ خیال ہے حضور کا اس سے نہ صرف پورا مسئلہ سامنے آ جائے گا بلکہ اس کے تکمیلی حل کے لئے مناسب اقدامات کرنے میں بھی آسانی رہے گی"۔ خوشامدی ٹولے نے اپنے کام کا آغاز کیا
 باشاہ سلامت کے حکم کے مطابق ایک کمیشن کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا۔وزیر باتدبیر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چچیرے بھائی کے بیٹے کو اس  کمیشن کا سربراہ مقرر کیا اب باری تھی ممبران کی تشکیل کی تو یہ معاملہ کچھ یوں ترتیب پایا کہ اہل دربار میں سے جو حضرات صاحب حیثیت تھے اور وزیر با تدبیر کی خوب خاطر تواضع کی اہلیت رکھتے تھے ان کے مشورہ خاص سے ممبران کا چناؤ کیا گیا اور یوں پندرہ ممبران پہ مشتمل کمیشن کی تشکیل کا یہ پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔
اگلے دن پندرہ ممبران پہ مشتمل یہ کمیشن متاثرہ بندر کے گھر تحقیق و تفتیش کے لئے پہنچ گیا۔ بندروں کے خاندان نے ان کی خوب خاطر طواضع کی کہ وہ انہیں اپنا مسیحا سمجھ رہے تھے۔ حتیُ المقدور فیض یاب ہونے کے بعد کمیشن نے ایک لمبا سلسلہ سوالات و جوابات شروع کیا اور کافی دیر کی بحث و تمحیص کے بعد وہاں سے بغیر کسی انجام تک پہنچے روانہ ہو گیا۔ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا لیکن حل تھا کہ ندارد۔ جب بندروں نے یہ دیکھا تو مایوسی کے ساتھ ساتھ ان کی الجھن بھی بڑھنے لگی۔ حتیٰ کہ بات تلخ کلامی تک آ پہنچی۔ جب بوڑھے بندر نے یہ حالت دیکھی کہ کمیشن کے آنے سے بجائے پہلے مسئلے کے حل کے مذید مسئلوں نے جنم لینا شروع کر دیا تو وہ ایک بار پھر بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر خدمت ہوا۔
۔" تمہارے مسئلے کا کیا ہوا "۔ بادشاہ نے جب بندر کو سرجھکائے اپنے سامنے دیکھا تو رعب سےگویا ہوا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے لیکن حضور میرا مسئلہ بجائے سلجھنے کے مذید الجھ گیا ہے"۔ بوڑھے بندر نے ڈرتے ڈرتے عرض کی اور پھر بادشاہ سلامت کو متوجہ پا کر سارا ماجرہ گوش گزار کر دیا
۔" وزیر با تدبیر یہ بندر کیا کہ رہا ہے۔ اس کا مسئلہ ابھی تک کیوں حل نہیں ہوا"۔ بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے توجیہ مانگی
۔" حضور ہم نے سلظنت کے قابل ترین جانوروں کا انتخاب کیا تھا لیکن لگتاہے بندر کا مسئلہ زیادہ گھمبیر اور توجہ طلب ہے"۔ وزیر نے ادب سے عرض کی جس پہ بادشاہ سلامت نے ایک لمبی سی "ہوں" بھری اور کچھ دیر متفکر نظروں سے بندر کو گھورنے  کے بعد یکدم اپنے تخت سے کھڑے ہو گئے۔
۔" ہمیں اپنے وزیر با تدبیر کی بات سے مکمل اتفاق ہے اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کی بار دو نئے کمیشن بنائے جائیں ایک کمیشن پہلے کمیشن کے ساتھ ملکر مسئلے کی نوعیت اور اس کا حل نکالے گا اور دوسرا کمیشن ان دونوں کمیشن کی کارکردگی پہ نظر رکھے گا"۔ چاروں طرف سے بادشاہ کی دانائی و عقلمندی کے نعرے بلند ہوئے جب کہ بوڑھے بندر کے چہرے پہ چھائے تفکر کے سائے مذید گہرے ہو گئے۔
ایک بار پھر وہی صبح شام کا چکر اور وہی بندروں کی عرق ریزی سے کی گئی خاطرتواضع اور وہی بغیر کسی انجام کے کام۔ بندروں نے اچھے دنوں میں جو جوڑرکھا تھا وہ سب کمیشنوں کی خاطر تواضع میں خرچ ہو گیا یہاں تک کہ جب نوبت خود کے فاقوں اور کمیشن کے نا ختم ہونے والے تقاضوں تک جا پہنچی تو اس بوڑھے بندر کو ایک دفعہ پھر بادشاہ سلامت کے حضور حاضر ہونا پڑا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے۔ حضورعالی مقام میری قوم اب فاقہ کشی کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے اور حضور کے بنائے گئے کمیشن تاحال کسی بھی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں"۔ بندر نے کانپتے لہجے کے ساتھ اپنا معاملہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کیا
۔" تم ہوش میں تو ہو  پتاہے کیا کہ رہے ہو اور کس کے سامنے کہ رہے ہو"۔ وزیر نے بادشاہ کے بولنے سے پہلے ہی بوڑھے بندر کی بات اچک لی۔ "حضور مجھےتو یہ بوڑھا بندر انتہائی مکار اور چالاک لگتاہے ۔اس نے ہمیں صرف الجھانے اور مملکت کے امور سرانجام دینے سے روکنے کے لئے یہ چال چلی ہے ۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں" ۔ بوڑھا بندر یہ کایا پلٹ دیکھ کر حیران رہ گیا اس سے پہلے کہ وہ اپنے تحفظ میں کچھ کہتا کہ بادشاہ سلامت کی گرجدار آواز سنائی دی
۔"اس بوڑھے بندر کو گرفتار کر لو اور ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھاؤ ۔ اگر وزیر با تدبیر کی بات سچ ثابت ہوئی تو اسے سر عام پھانسی دی جائے گی"۔چنانچہ ایک اور کمیشن ترتیب دیا گیا جس نےاس بات کی تحقیق کرنا تھی کہ آیا بندر کو حقیقتا مسئلہ درپیش تھا کہ نہیں۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلے نے وجود لیا کسی کو بھی اب یہ یاد ہی نہیں تھا کہ اصل مسئلہ کیا تھا اور کہاں سے شروع ہوا۔ چنانچہ نیا وجود پانے والے کمیشن نے قید خانے کا رخ کیا جہاں بوڑھا بندر قید تھا۔ جب معاملہ بوڑھے بندر کے سامنے آیا تو اس نے یکلخت مکمل چپ سادھ لی بہت کوشش کی گئی کہ وہ کچھ بولے لیکن بندر ہنوز خاموش رہا ۔ آخر اسے قصور وار گردانتے ہوئے اسے سرعام پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔
اس بوڑھے بندر کی قوم کے سارے بندر اس دن سے خاموش ہیں۔کمیشن پہ کمیشن بنتے جارہے ہیں اور بندر سرعام پھانسی چڑھتے جا رہے ہیں لیکن کوئی کچھ بولنے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ نجانے کیوں؟۔
Unknown


۔"آج پتا ہے کیا ہوا"۔ میں جو ابھی ابھی کام سے گھر لوٹا تھا اپنی بیوی کی سرگوشی بھری آواز سن کر چونک گیا
۔"لگتا ہے کوئی خاص بات ہے "۔ 
۔" ہاں نا"۔ وہ اب میرے قریب آ کے بیٹھ گئی اور میں جو جوتے اتارنے کے بعد واش روم کا رخ کرنے والا تھا اس کا یہ راز دارانہ انداز دیکھ کے وہیں بیٹھ گیا۔ بہت ساری عورتوں کی طرح کہ اب جب تک وہ پوری بات مجھے بتانہ دیتی اسےآرام آنے والا نہیں تھا۔ لہٰذا مناسب یہی تھا کہ میں اس نیک بخت کے اندر کے اس راز کو سننے کے بعد ہی غسل خانے کا رخ کرتا۔
۔"وہ نئیں ہے خالہ سکینہ  ۔۔۔۔ ارے وہی جو اس دن ہمارے گھر بھی آئیں تھیں اور بریانی بھی لائی تھیں"۔صحیح اچھی طرح یاد دہانی کرانا ضروری تھا کہ کہیں میں کسی کی نیکی کسی اور کے کھاتے میں نا ڈال دوں ۔ " اس کی پڑوسن ہے نا نجمہ پتا ہے اس نے آج کیا کیا"۔ اس نے میرے تجسس کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اب میں اسے کیا کہتا کہ سارے دن کا تھکا ہارا بندہ سب سے پہلے تازہ دم ہونے کے لئے واش روم کی طرف جانا چاہے گا نہ کہ خالہ سکینہ یا نجمہ کے قصے سننا پسند کرے گا لیکن ایک تابعدار اور پر امن شوہر کی طرح میں نے اپنے چہرے پہ تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی اور شاید میں اس میں کامیاب بھی رہا تھا۔
۔"اس کا کسی سے معاشقہ چل رہا تھا اور اس کے شوہر نے اسے پکڑ لیا بس پھر کیا تھا یہ مار اور وہ مار دونوں میں خوب جھگڑا ہوا اور وہ اپنے میکے چلی گئی ہے۔ توبہ توبہ عورت جب بگڑنے پہ آئے تو اچھے بھلے مرد کی عزت کو مٹی میں رول دیتی ہے"۔  وہ اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی
۔" یہ سب عجیب و غریب اور پھپھہ کٹنیوں والی باتیں تم عورتوں تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ گھر کس کا ، بات کس کی اور سنا کوئی رہا ہے۔ بڑی بری عادت ہے یہ "۔ حسب دستور میں نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینی ہے ۔ " اور یہ بات تم نے آگے کتنوں کو بتائی ہے" میں نے اچانک یاد آنے پہ اسے کریدنا چاہا۔
۔" میں کوئی چغل خور تھوڑی ہوں جو کسی کی بات کسی کو بتاتی پھروں اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے"۔ اس نے  قدرے برا مناتے ہوئے کہا اگرچہ مجھے اس کی اس بات سے اتفاق نہیں تھا تاہم میں نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور  خاموشی اختیار کر لی۔
خالہ سکینہ ہمارے محلےکی ایک انتہائی فعال اور متحرک شخصیت ہیں۔ ہر کسی کے گھر میں ان کا آنا جانا تھا۔ انتہائی ملنسار، ہمدرد اور خدمت گزار قسم کی عورت ہیں اورادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرنا خالہ کا ایک اضافی وصف تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ عورتیں خالہ کی صحبت پسند بھی بہت کرتی تھیں یہ سوچے بغیر کہ جو خالہ ان کے سامنے سکینہ، علینہ، راحیلہ کی بات کرتی ہے اور ان کی عیب جوئی کرتی ہے وہ سکینہ، علینہ اور راحیلہ کے سامنے ہماری بھی تو اسی طرح عیب جوئی کرتی ہو گی۔ لیکن بس اللہ ہدایت دے اس مخلوق کو کہ وہی انہیں ہدایت دے سکتا ہے۔تو بات ہو رہی تھی خالہ سکینہ کی ۔ خالہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی کچھ سال پہلے ہی خالہ نے شادی کر دی تھی اور اب اپنےچھوٹے بیٹے کے ساتھ مقیم تھیں۔ سنی سنائی بات ہے کہ خالہ کی ا پنی بڑی بہو سے ان بن لگی رہتی تھی اور روزانہ ہی لڑائی جھگڑا بلکہ گھمسان کا رن پڑتا تھا آخر بڑے بیٹے نے تنگ آ کر اپنا الگ گھر لے لیا اور اب وہ دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے۔ہاں البتہ خالہ ابھی تک اپنی بہو کو معاف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میں ایک دفعہ پھر گوش گزار کر دوں یہ سنی سنائی باتیں ہیں اور خالہ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی باتوں کا گمان کرنا کچھ زیادہ مناسب معلوم نہیں پڑتا۔
اس کے بعد بھی بہت دفعہ اپنی زوجہ محترمہ سے خالہ کے مستند حوالے کے ساتھ بہت سارے واقعات سننے کو ملتے رہے۔ کہیں کسی بیوی نے خاوند کی ٹھکائی کی تو کہیں خاوند نے اپنی بیوی پہ ظلم کی انتہا کر دی، کہیں ساس بہو کا مسئلہ تو کہیں  اڑوسی پڑوسی میں ان بن الغرض ہر تیسرے روز خالہ کے توسط سے حالات محلہ سے ہم لوگ آگاہ ہوتے رہے اس امید کے  ساتھ کہ محلے کے کسی بھی گھر میں ہم میاں بیوی موضوع بحث نہیں ہوں گے اگرچہ اس کا امکان آٹے میں نمک کے برابر ہی تھا تاہم اچھا گمان صحت کے لئے ضروری ہے۔
اس روز میری طبیعت کچھ بوجھل سی تھی اور تھوڑی بہت کھانسی بھی تھی۔ میں نے دفتر سے چھٹی کر لی۔ ارادہ یہ تھا کہ دن میں کسی ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرا لوں گا۔ یہ تقریباَ کوئی دن گیارہ بجے کا وقت ہو گا جب مجھے محلے میں سے کسی کے  رونے اور واویلا کرنے کی آواز سنائی دی۔  ہم دونوں میاں بیوی یہ آوازیں سن کر پریشان ہو گئے اور میں حال احوال دیکھنے باہر نکل گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی کے گھر ماتم بچھ گیا ہو۔ دل ہی دل میں جب میں اللہ خیر کرتا وہاں پہنچا جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں تو بہت سارے لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر مجھے اپنے اندازہ کی درستگی کا گمان ہوا کہ واقعی شاید کوئی فوتگی ہو گئی ہےلیکن جب قریب گیا تو جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ حیران و پریشان کرنے کے لئے کافی تھا۔خالہ سکینہ اس ہجوم کے درمیان میں آلتی  پالتی مارے کسی کو کوسنے میں مصروف تھیں۔کچھ لوگ خالہ کو حوصلہ دلاسہ دینے میں مصروف تھے لیکن خالہ تھی کہ ایک ہی سپیڈ سے کسی مراد نامی بندے کو نامراد کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔میں نے جب یہ حالت دیکھی تو ماجرا جاننا چاہا تب وہ بات پتا چلی جسے کے لئے اوپر کی تمام سطور آپ قارعین کے گوش گزار کی ہیں اور جو اس ساری تحریر کا لب لباب ہے۔میں نے آپکو بتایا تھا کہ خالہ کی ایک بیٹی بھی ہے جو کہ شادی شدہ تھی جس بندے سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ خالہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور دونوں کی پسند کی شادی تھی جسے خاندان کی سند قبولیت بھی حاصل تھی یوں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب شادی تھی اور دونوں میاں بیوی نے پچھلے تین سالوں میں یہ بات ثابت بھی کر دی کہ وہ دونوں ایک کامیاب شادی شدہ جوڑا ہیں۔ دونوں ہی میں بڑا پیار تھا اور پھر خالہ سکینہ کے داماد  مراد نے اپنی بیوی کے لئے گھر بھی علیحدہ لیا تھا تا کہ اگر کبھی اس کی بیوی اور اس کے ماں باپ کے درمیاں کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کی بیوی کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ پچھلے تین سالوں میں ان دونوں کے درمیاں کسی بھی قسم کا کوئی بھی جھگڑا سننے میں نہیں آیا یا کم از کم ایسا کوئی جھگڑا تو ہر گز ہرگز نہیں تھا جس سے نوبت یہاں تک آ پہنچتی۔سبھی حیران تھے کہ آخر مراد کو ایسا کیا ہوا ہے یا خالہ سکینہ کی بیٹی سے ایسی کیا غلطی سرزد ہو گئی کہ بات اتنی بڑھ گئی۔ میں نے ہجوم پہ ایک طائرانہ نظر دوڑائی تو مجھے ان میں خالہ کا بڑا بیٹا بھی نظر آ گیا جو ایک طرف کھڑا خاموشی سے اپنی بہن کے اجڑنے کا تماشا دیکھ رہا تھا۔میں اپنے دکھ کا اظہار کرنے اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ تب اس نے مجھے وہ بات کہی جو ایسی کہانیوں کا انجام ہوتی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ
۔" مجھے اپنے ماں کے دکھ پہ کوئی دکھ نہیں ہے لیکن اپنی بےقصور بہن کے اجڑنے کا بہت دکھ ہے۔میں مراد کو بھی برا بھلا نہیں کہوں گا کیوں کہ اسے واقعی میری بہن سے محبت تھی اور اس نے اپنے شوہر ہونے کے وہ سارے حقوق ادا کئے جو کوئی بھی اچھا شوہر ادا کرے گا۔  دل بھر گیا ہے میرا ۔۔۔ یہ الفاظ تھے مراد کے جب اس نے میری بہن کو طلاق دی ۔کیا کبھی آپ نے کسی ایسے بندے کے منہ سے اپنی اس بیوی کے لئے ایسے الفاظ سنے ہیں جس سے اس نے پسند کی شادی کی ہو پھر اسے عزت اور محبت سے رکھا ہو ، دیوانوں کی طرح اسے پیار کرتا ہوں اور پھر بس تین ہی سالوں میں اس کا جی بھر جائے ایسا کبھی سنا ہے آپ نے۔یقینا نہیں سنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے دل کے اوپر سیاہ دھبے بن گئے تھے جنہوں نے اس کے دل سے میری بہن کی محبت کو نکال باہر کیا اور یہ سیاہ دھبے پتا ہے کیا ہیں۔۔۔ یہ میری ماں کی وہ چغلیاں ہیں جو وہ گھر گھر جا کر لگاتی تھی۔ اس کی نظر میں کسی کی عزت و حمیت کا کوئی خیال نہیں تھا تو پھر قدرت اس کی عزت و حمیت کا خیال کیسےکرے گی"۔
Unknown
۔"اوئے چل جلدی کر ورنہ وہ نکل جائے گی"۔ وہ بہت جلدی میں تھا 
۔"کون نکل جائے گی اور کہاں نکل جائے گی"۔ میںنے ارشد کی طرف دیکھا جو آج ضرورت سے زیادہ ہی بنا سنورا کھڑا تھا
۔"ارے تو پہلے اٹھ ، گاڑی نکال رستے میں تجھے بتاؤں گا۔ جلدی کر یار ورنہ ساری محنت رائیگاں جائے گی"۔ اس نے اپنے بناؤ سنگھار کا ایک دفعہ پھر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت ایک کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن ارشد میرے بچپن کا دوست تھا۔  چارو ناچار اٹھنا ہی پڑا۔ ہماری منزل گھر سے بمشکل دس منٹ کی ڈرائیو پہ ایک بس پوائنٹ تھا جہاں کچھ لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف جانے کے لئے بسوں کا انتظار کر رہے تھے۔صبح کا وقت تھا اوروہاں کافی رش تھا۔ ارشد گاڑی رکتے ہی باہر نکل گیا ۔وہ سیاہ نقاب میں ڈھکی چھپی ایک لڑکی تھی جو ایک طرف کھڑی شاید ارشد کا ہی انتظار کر رہی تھی کیوں کہ جونہی اس نے ارشد کو دیکھا اس کی طرف بڑھنے لگی۔وہ اسے لئے ایک قریبی کولڈ ڈرنکس پوائنٹ پہ چلا گیا جبکہ میں وہیں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ میں اس کی عادتوں کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور  مجھے کبھی بھی کباب میں ہڈی بننا پسند نہیں رہا۔ ان دونوں کی واپسی تقریباَ آدھے گھنٹے میں ہوئی۔ وہ لڑکی دوبارہ وہیں جا کھڑی ہوئی جہاں ہمارے آنے سے پہلے کھڑی تھی اور ہم دونوں واپس گھر کے لئے نکل پڑے۔
۔" پرسوں کی تاریخ ملی ہے یار، سالی کے پیچھے پچھلے تین ماہ سے لگا ہوا تھا لیکن یہ تو اپنے پروں پہ پانی ہی نہیں پڑنے دے رہی تھی   لیکن مییں نے بھی خود سے تہیہ کیا تھا کہ جب تک اس کے ساتھ نہیں سوؤں گا کسی اور لڑکی کا نام تک نہیں لوں گا۔ کیا لڑکی ہے یار تجھ جیسا کھٹور بھی اگر ایک بار اسے دیکھ لے نا تو قسم سے اپنی ساری انا اس کے قدموں میں ڈھیر کر دے"۔ وہ حسب دستور شروع ہو گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے ایسے معاملات میں کبھی بھی کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔ تاہم میں نے کبھی بھی اس کے معاملات پہ نکتہ چینی کرنے یا ناصح بننے کی کوشش نہیں کی۔ 
اگلا سارا دن ارشد کے ساتھ اسی سیاہ پوش کے لئے تحفہ خریدنے کی نظر ہو گیا۔ اس نے پورا طارق روڈ کھنگال مارااور پھر خدا خدا کر کےر ات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اسے ایک خوبصورت ساڑھی پسند آئی اور یوں میری جان اس عذاب سے چھوٹی۔
۔" تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے"۔ میں جو ابھی ابھی باہر سے آیا تھااس کی آواز سن کر چونک گیا۔ بلیک سوٹ میں ملبوس وہ بہٹ خوبصورت لگ رہا تھا ۔
۔" میں نے تیار ہو کے کہاں جانا ہے"۔ میں نے ہنوز صوفے پہ اپنی ٹانگیں پسارتے ہوئے پوچھا
۔" ابے سالے بھول گیا آج ہی تو وہ خوبصورت شام اور یادگار رات ہے جب پچھلے تین ماہ سے دل میں دبی سلگتی خواہشات کی تکمیل ہونے والی ہے"۔  وق میرے سامنے صوفے پہ بیٹھ چکا تھا
۔" تو میں نے وہاں کیا کرنا ہے ۔ چابی لو گاڑی باہر کھڑی ہے اور اللہ بیلی"۔
۔" او نئیں یار آج تو تجھے میرے ساتھ آنا ہی ہو گا۔ چاہے بے شک وہاں چائے سموسے کھا کے واپس آ جانا اور گاڑی بھی لے آنا میں صبح تیکسی پہ آ جاؤں گا"۔ 
میرے کافی انکار کے باوجود وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پہ بضد تھا۔ آخر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں اس کے ہمراہ ہو لیا۔ مطلوبہ فلیٹ تک پہنچتے پہنچتے ہمیں شام کے چھ بج گئے۔ ہمارا استقبال سفید سوٹ میں ملبوس ایک خوش پوش نوجوان نے کیا ۔ وہ فلیٹ اس کے ماموں کا تھا جہاں کبھی کبھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ زندگی کے مزے لوٹنے آتا تھا۔ ابتدائی مہمان نوازی اور سلام دعا کے بعد میں نے اجازت مانگنی چاہی تو ہمارا میزبان بضد ہوا کہ کھانا کھا کے جائوں اور صنف نازک کے پہنچتے ہی کھانا لگا دیا جائے گا پھر بے شک اگر میں جانا چاہوں تو جا سکتا ہوں۔ارشد کی بھی یہی ضد تھی ۔مجبورا مجھے کچھ دیر اور وہاں رکنا تھا۔ تقریباَ بیس یا پچیس منٹ کے بعد ارشد کی گل لیلیٰ آ پہنچی اور یوں آدھا انتظار ختم ہوا تاہم ابھی آدھا انتظار باقی تھا کیوں کہ ہمارے میزبان کی گل لیلیٰ کی آمد ابھی باقی تھی۔ 
۔" دراصل میری دوست ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور گھر میں بھائی کی موجودگی میں اس کا نکلنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم لوگ مہینے میں بمشکل دو چار بار ہی مل پاتے ہیں جب کبھی اس کے بھائی کو کسی کام کے سلسلے میں باہر جانا پڑے"۔ جب انتظار کی گھڑیاں کچھ لمبی ہوئیں تو ہمارے میزبان نے اپنی دوست کی دیری کی معذرت خواہانہ انداز میں   وضاحت کی۔اور ساتھ ہی موبائل پہ رابطے کی کوشش بھی جو پہلی ہی بار میں بارآور ثابت ہوئی اور ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارا آخری مہمان بس چند منٹوں میں پہنچنے ہی والا ہے۔ 
ارشد کی ابھی سے چھیڑ چھاڑ شروع تھی اور جس محفل کا ہم حصہ تھے اس کا مقصد ہی ایسی چھیڑ چھاڑ کی انتہا تھی۔ پھر  کچھ دیر یونہی ہنسی مزاق اور چھیڑ چھاڑ کی نظر ہو گئےجب اطلاعی گھنٹی کی خوبصورت آواز سنائی دی۔ہمارا آخری مہمان بھی پہنچ چکا تھا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی ہمارا میزبان کمرے سے باہر نکل گیا۔ ارشد ابھی بھی اسی مہ جبیں کے ساتھ سر  مستیوں میں مصروف تھا اس کا غالباَ داؤ نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ وہیں اس کے ساتھ محبت کی انتہاؤں کو چھو لیتا۔اسی دوران مجھے باہر سے ہلکی سی ہنسی اور "چھوڑو اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو ساری رات باقی ہے " کی دھیمی سی آواز سنائی دی ۔ ہمارا میزبان غالباَ اپنی دوست سے انتظار کا جرمانہ وصول کر رہا تھا۔
۔" دیکھا کتنی بے صبری ہے محبت میں پتا مہیں تو کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ میں تو کہتا ہوں آج یہیں رک جا ہمارے ساتھ۔ دونوں میں جو پسند آئے وہ تمہاری اور چاہوں تو دونوں ہی تمہاری ۔ہم محبت میں مل بانٹ کر کھانے کے قائل ہیں۔ کیوں جان"۔آخر میں اس نے اپنے پہلو میں بیٹھی آتش دو ناد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جس نے ایک دلربانہ انداز میں سر سے پاؤں تک مجھے غور سے دیکھا جیسے قصائی قربانی سے پہلے بکرے کو پرکھتے ہوئے دیکھتا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں اس کی اس بات کو  کوئی جواب دیتا ہمارا میزبان اپنے آخری مہمان کےہمراہ کمرے میں داخل ہوا ۔ اسی پل میں نے ارشد کو انتہائی تیزی سے صوفے سے اٹھتے ہوئے دیکھا اور میں بے اختیار پیچھے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ہمارا آخری مہمان کوئی اور نہیں ارشد کی بہن ردا ناز تھی۔

Unknown
 ڈرون حملوں پر احتجاج کے لئے امریکی سینئر سفارتکار کی طلبی کے دوسرے ہی روز امریکہ نے اس کا جواب شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں پے در پے تین ڈرون حملوں سے دیا ہے جس میں 21 افراد جاں بحق، 15 زخمی ہو گئے۔ امریکہ نے پاکستان کے احتجاج کو نظرانداز کر کے میرانشاہ اور شوال کے مختلف مقامات پر تین ڈرون حملے کئے جن میں تین گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان ڈرون حملوں میں 10 میزائل داغے گئے
نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں
امریکہ ہمیں پہلے کئی بار کی باور کرائی گئی بات کی ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرا رہا ہے کہ ہم محکوم قوم ہیں اور محکوم کو حاکم کی کسی بات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔  بلکہ یہ تو در حقیقت سرا سر باغیانہ رویہ ہے اور لائق سزا ہے۔ دکھ کی بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ یا دوسری مغربی طاقتیں ہمارے ساتھ ایسا رویہ روا رکھتے ہیں یا یہ کہ ہم تعمیر و ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں، یا ہم مغلوم ہیں یا ہماری طاقت بکھری ہوئی اور حامل انتشار ہے یا ہم بے انتہا مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ قوموں کی زندگیوں میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں اور صاحب بصیرت قومیں نہ صرف انتہائی گہرائی سے ان مسائل و حالات کا تجزیہ کرتی ہیں بلکہ ان سے نکلنے کے لئے سالہا سال پہ محیط مستقل منصوبہ بندی بھی کرتی ہیں۔ اصل دکھ کی بات تو یہ کہ ہم زوال کی اس دلدل سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم  کی یہ سوئی ہوئی قوم آج بھی اسی طرح خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے جس طرح آج سے 65 سال پہلے تھی۔ فرق صرف اتناہے کہ اس وقت ہم مسلمانوں کو ڈبونے اورلوٹ مار کرنے والے ہندو اور انگریز تھے جب کہ آج یہ کام ہم پاکستانی خود کر رہے ہیں۔ لوٹ مار کی اس بھاگم بھاگ میں صرف پاکستانی سیاست دان شامل نہیں ہیں یہ وطیرہ پوری قوم کا امتیازی نشان بن چکا ہے۔  سیاست دانوں کی ملکی دولت تک رسائی ہے وہ اسے لوٹتے ہیں، کارخانے کے مالک کی اپنے ملازموں تک رسائی ہے وہ ان کا خون چوستا ہے۔ افسر کی ماتحت تک رسائی ہے وہ اسے کاٹنے میں لگا ہے۔ کسی کی بجلی چوری تک رسائی ہے وہ واپڈا کو لوٹنے میں مصروف ہے کسی کی جان پہچان سوئی گیس میں ہے اس کی سوئی گیس فری ہے اور کچھ بیچارے جن کی پہنچ میں کچھ بھی نہیں ہے وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہو کر اور اپنی اپنی ڈیوٹی میں اپنی نیندیں پوری کر کے اپنا امتیازی وطیرہ پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ قوموں کی زندگی میں زوال آنا برا نہیں ہے ۔ برا تو اس زوال کی وجوہات کا نہ جاننا ہے اور اس سے بھی برا اور ظالمانہ فعل زوال کے اسباب جاننے کے باوجود بھی ان کا تدارک نہ کرنا ہے۔
کچھ دن پہلے ایسے ہی کسی موضوع پہ بحث کے دوران میرے ایک بھائی کی مجھ سے ہلکی سی جھڑپ ہو گئی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان کی زبوں حالی کا سارا کریڈٹ پاکستانی سیاست دانوں کو جاتا ہے جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ اگرچہ اسمیں ہمارے سیاست دان کا بہت حصہ ہے لیکن اس بات کا سہارا لے کر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیئے اور نہ ہی اپنی کی گئی لوٹ مار کے اوپر پردہ ڈالنے کی کو شش کرنی چاہیئے بلکہ جو حقیقت ہے اسے ماننا چاہیئے کہ اس ملک کو اس حال تک لے جانے میں ہم عوام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمیں انتہائی گہرائی میں جا کر اپنے اندر کی تمام بے ایمانیوں کو کھوجنا ہو گا۔ ہم کہاں کہاں سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اسے ماننا ہوگا۔ اس عوام نے کہاں کہاں اپنی تقدیر کے غلط فیصلے کئےہیں انہیں جاننا ہو گا۔ آج میں نے اپنی ذمہ داریاں کتنی تندہی اور ایمانداری سے سرانجام دی ہیں ہر روز بستر پہ جانے سے پہلے اسکا محاسبہ کرنا ہو گا۔ اپنی سوچ کو خود اور صرف خود کے سدھار کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔  تب شاید کہیں جا کر ہم کسی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن اگر ہم سب اپنی بقا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ہوگا۔ قوموں میں انقلاب کسی جادو سے نہیں آتے درحقیقت وہ تو ان کی سوچ ان کے رویے اور انداز زندگی میں تبدیلی سے آتے ہیں اور یہ کام حکومتیں نہیں کرتیں میرے اور آپ جیسے عام لوگ عام عوام کرتے ہیں۔
یہاں پہ ایک گلہ اپنے میڈیا سے بھی ہے جو ہر وقت بادشاہ وقت کی ناعاقبت اندیشیوں کو کھوجنے میں برسرپیکار تو نظر آتا ہے لیکن عوام کے اجتمائی اور سیاسی گناہ کی پردہ پوشی کر جاتا ہے اور شاید یہ اس لئے ہے کہ یہ عوام ہی تو اسکی ناظرین میں شمار ہو تی ہے۔ اور اپنے ناظر کے سامنے اس کی عیب جوئی ہم پاکستانیوں کی فطرت کا خاصہ نہیں ہے۔ یا پھر میڈیا ہمیں مظلوم عوام کے درجے پہ دیکھتا ہے جیسے ایک ڈاکٹر ایک کوڑھی کو ترس بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ اور اگر میڈیا کی ایسی سوچ ہے تو وہ اسمیں حق بجانب ہے کیوںکہ ہم عوام کوڑکے ہی مرض میں تو مبتلا ہیں۔ لیکن یہ مرض ہماراخود کا طاری کردہ ہے اور ہمیں خود ہی اس سے نکلنے کی سبیل کرنا ہو گی۔ آج یا کل اور جتنی جلدی ہم اپنا محاسبہ کرنے میں کامیاب ہوں گے اتنی ہی جلدی ہمارا کوڑھ ختم ہو گا۔
Unknown

اسلام میں تجدید دین کا تصور

اسلام تمام زمانوں، مخلوقات اور اس روزِ محشر تک کیلئے جس کے متعلق قران پاک وضاحت کے ساتھ انسانوں کو ہدایت دیتا ہے مکمل ضابطہ حیات ہے۔میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ بات نہیں کہ رہابلکہ حقیت یہ ہے کہ آج کے انسان کا مطالعہ، سائنسی تحقیق و جستجو، غوروفکر اور درپیش مسائل کے تکمیلی حل کی تگ و دو نے یہ بات اسے بخوبی باور کرا دی ہے کہ درحقیقت اسلامی نظریہ حیات ہی دور حاضر کی جہتوں کی تکمیلی شکل ہے۔قران کو کسی تفسیر کی ضرورت نہیں ہے کہ قران خود اپنا استاد ہے۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے حالات و واقعات، تعلیمی و تکمیلی شعور، نظریہ زندگی اور نظریہ سائنس میں اور آج 24 اگست 2012 کو جب میں یہ مکالہ لکھنے بیٹھا ہوں میں مندرجہ بالا تمام معاملات و اشکالات میں کافی فرق ہے۔ پھر ایک اصطلاح جو زبان زد عام ہے "تجدید دیں" کی کیا شکل اورحالت ہے۔تھوڑا سا عربی گرامر دیکھتے ہیں
 'تجدد' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ 'ج ۔ د ۔ د' ہے۔ اس مادے سے عربی زبان میں دو اہم الفاظ استعمال ہوتے ہیں' ایک 'تجدد' اور دوسرا ' تجدید' ۔ 'تجدد' باب تفعّل سے مصدر ہے اور اس مصدر سے اسم الفاعل 'متجدد' بنتا ہے جبکہ 'تجدید' باب تفعیل سے مصدر ہے اور اس کا اسم الفاعل 'مجد ِد' استعمال ہوتا ہے۔ معاصر مذہبی اردو لٹریچر میں 'تجدد' ایک منفی جبکہ 'تجدید' ایک مثبت اصطلاح کے طور پر معروف ہے۔باب تفعیل سے 'تجدید' کا لفظ متعدی معنی میں مستعمل ہے اور 'جدّد الشیئ'  کا معنی ہو گا کسی شے کو نیا کرنا ۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس لفظ میں 'تاء' طلب کے معنی میں ہے' یعنی کسی چیز کو نیا کرنے کی خواہش رکھنا۔
مجدد کے متعلق رائے عامہ کا عمومی نظریہ انتہائی مہلک ہے۔ عمومی رجحان یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو دین اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کرے یا نکات و دلائل کی بھیڑ بھاڑ میں کوئی نیا نظریہ نہ صرف سامنے لائے بلکہ انتہائی تیزی سے اپنے اس نئی ایجاد کو عوام الناس میں رائج کر نے میں کامیاب ہو جائے وہ مجدد کہلاتا ہے۔ خصوصاَ وہ لوگ جو مسلمانوں کی خستہ حالی یا زبوں حالی میں انہیں دنیا کے مروجہ نظاموں کی مدد سے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں یا طاقتور قوموں یا نظاموں سے انحطاط کر کے مسلمان قوم کے سہارے کا سبب بنتے ہیں اور دینِ اسلام کو جدیدیت کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بر سر اقتدار جاہلیت سےربط جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں مجدد کہا جاتا ہے۔یہ مجدد نہیں بلکہ متجدد ہیں اور ان کا کارنامہ تجدد ہے جبکہ مجدد کا کام تجدید ہے نہ کہ تجدد۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں'' تجدید اس وقت ہوتی ہے جبکہ کسی شے کے آثار مٹ جائیں۔ یعنی جب اسلام غریب اور اجنبی ہو جائے تو پھر اس کی تجدید ہوتی ہے''۔ (مجموع الفتاویٰ' ج١٨' ص٨)۔
جب زمان و مکاں جہالت کی سیاہی میں تر بتر ہو جاتے ہیں تب مجدد' دین اسلام کی اصل تعلیمات پر پڑ جانے والے جہالت اور سیاہی کے ان پردوں اور حجابات کو اٹھاتا ہے اور دین کا حقیقی رنگ واضح کرتا ہے۔ پس تجدید سے مرادکسی شے کی اصلاح' اس میں اضافہ یا تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد پہلے سے موجود ایک شے پر پڑے ہوئے پردوں یاحجابات کورفع کرناہے۔
ایک بات بالکل ٹھوس اوراٹل ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے اس جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے وقت اور بعد میں خلفائے راشدین کے دور میں دین اسلام اپنی حقیقی صورت میں موجود تھا' اس کے بعدرفتہ رفتہ لوگوں کے عقیدوں میں بگاڑ آنا شروع ہو گیا اور بدعتی فرقوں مثلاً خوارج' معتزلہ' جہمیہ' اور کلامی گروہوں نے بہت سے باطل نظریات اور تصورات کو دین اسلام کے نام پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ائمہ و مجتہدین نے ان باطل افکار و نظریات کی شد و مد سے تردید کی اور دین کے اس حقیقی اور صحیح تصور کو واضح کیا جس پر ان گمراہ فرقوں کی کج بحثیوں کے نتیجے میں حجابات پڑ گئے تھے۔ اسی فعل کا نام تجدید ہے اور اس کے فاعل کو' مجدد' کہتے ہیں۔ 'تجدید ِعہد' کی اصطلاح عربی زبان میں معروف ہے اور اس سے مراد کوئی نیا عہد باندھنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود عہد کو پختہ اور نیا کرنا ہے۔
علامہ یوسف قرضاوی کے بقول تجدید سے مراد کسی شے کو اس کی اصل حالت پر لوٹانا ہے پس اسلام کی تجدید سے مراد کوئی نیا اسلام پیش کرنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود اسلام پر گمراہ اور بدعتی فرقوں کی طرف سے ڈالے گئے حجابات کو رفع کرتے ہوئے اسلام کو از سر ِنو نیا کرنا ہے۔ اللہ کے رسولؑ کا ارشاد ہے
 
ِانَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں اس اُمت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجتے ہیں جو اُمت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے 
 سنن ابی داود' کتاب الملاحم' باب ما یذکر فی قرن المائة 
اس روایت کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے
 
اس کے برعکس باب تفعّل سے 'تجدد' کا لفظ لازمی معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ' تجدّد الشّیئ'  کا معنی ہو گا :کسی شے کا نیا ہو جانا۔ عربی زبان میں'تجدّد الضّرع' کا معنی ہے: جانور کے دودھ کا چلے جانا۔ جب جانور کا پچھلا دودھ چلا جائے گا تو اب نیا دودھ آئے گا اور اسی کو 'تجدّد الضرع' کہا گیا ہے ۔ پس تجدد کا معنی ہے پہلے سے موجود کسی شے کا غائب ہو جانا اور اس کی جگہ نئی چیز کا آجانا۔ پہلے والا دودھ دوہنے کے بعد جانور کے تھنوں میں جو نیا دودھ آئے گا' وہ نیا تو ہے لیکن پہلے والا نہیں ہے۔ اسلام کے تجدد سے مراد یہ ہو گی کہ پہلے سے موجود اسلام غائب ہوجائے اور اس کی جگہ نیا اسلام آ جائے ۔
 
الاٰخر 'تجدید' دین اسلام کو جاہلانہ رسم ورواج اور حجابات سے نکال کر اسے اس کی اصل شکل میں رائج کرنے کا نام ہے اوریہ ایک مثبت عمل ہے اور دین میں مطلوب ہے جبکہ تجدد ایک منفی اصطلاح ہے جو دین کے اندر کسی نئی شے کو پیدا کرنے کا نام ہے اوردین میں ایک ناپسندیدہ اور ظالمانہ فعل ہے۔
 
واللہُ اعلم بِاثواب
Unknown

آپؑ کی بیمار پرسی کا انداز

آپؑ کسی کی بیمار پرسی کو جاتے تو اپنا دایاں ہاتھ بیماری کی جگہ پر پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے:۔
اَ ذْ ھِبِ ا لْبَاْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِـفَـآ ءَ اِلاَّ شِفَآؤُ کَ شِفَآءً لاَّ یُـغَادِرُ سَقَـمًا
بیماری کو دور فرما دیجئے (اے) انسانوں کے پروردگار، شفا دیں ۔ آپ ہی شفا دینے والے ہیں۔ آپکے سوا کوئی بھی شفا نہیں دے سکتا۔ ایسی شفا دیں جو بیماری کو ختم کردے۔
بخاری ، مسلم
نوٹ: آپ اپنے لئے بھی یہ دعا بار بار مانگئے اور اپنے مریضوں کیلئے بھی۔

آپؑ کوجب کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین (قُـلْ اَعُـوْذُ بِـرَبِّ الْفَلَقِ اورقُـلْ اَعُـوْذُ بِـرَبِّ ا لـنَّـا سِ) پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک کر ہاتھوں کو بدن پر پھیرتے اور یہی عمل آپؑ اپنے گھر والوں پر بھی کرتے تھے جب کوئی بیمار ہوجاتاتھا
مسلم
نوٹ : آپ بھی بیماری میں اور روزانہ رات کو سوتے وقت تین بار یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکئے اور پھر اپنے پورے جسم پر ہاتھ پھیرئیے

مریض اپنی تکلیف کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر تین بار بِسْمِ ا للّٰہِ پڑھ کر سات مرتبہ یہ دعا پڑھے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ ا لْعَزِیْزُ ہر قسم کا درد یاتکلیف جلد ختم ہو جائے گی
اَ عُوْذُ بِعِزَّ ۃِ اللّٰہِ وَ قُدْ رَ تِہٖ مِنْ شَرِّ مَآ اَجِدُ وَ اُحَا ذِ رُ
میں اﷲ تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں ہر اس تکلیف سے جو میں پاتا ہوں اور (اس سے ) ڈرتا ہوں
مسلم
  آپؑ نے فرمایاکہ جو مسلمان بیماری کی حالت میں اﷲ تعالیٰ کو ان الفاظ کے ساتھ 40 مرتبہ پکارے پھر وہ اسی بیماری میں فوت ہو جائے تو اسے (ایک)شہید (جتنا) ثواب دیا جائے گا اور اگر وہ (اس بیماری سے) بری ہو گیا تو وہ اس حال میں بری ہو گا کہ اس کے تمام گناہ معاف ہو چکے ہونگے۔ وہ الفاظ یہ ہیں
لَآ اِلٰہَ اِلَّآاَنْتَ سُبْحَانَکَ اِ نِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
الانبیآء 21 : آیت 87
آپ کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ پاک ہیں، بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے
حاکم
نوٹ : آپ بھی بار بار روزانہ مندرجہ بالادعا مانگئے
آپؑ کا ارشاد ہے کہ میری امت کے ستر ہزار لوگ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے۔آپؑ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا و جہ ہے؟ تو آپؑ نے جواب دیا’’وہ دنیا میں آگ سے داغ نہیں لگواتے،نہ جھاڑ پھونک(شرکیہ تعویز جادو گنڈے کرواتے ہیں اور نہ کوئی برا شگون لیتے ہیں
 بخاری
 آپؑ کا ارشاد ہے کہ مسلمان کو کوئی مصیبت، بیماری، غم، یا پریشانی پہنچتی ہے حتٰی کہ اگر کوئی کانٹا بھی اسے چبھ جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی و جہ سے اسکے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں
بخاری

آپؑ کا ارشاد ہے کہ اے اﷲ کے بندو، علاج کیا کرو کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو
احمد ، ابوداؤد

آپؑ کا ارشاد ہے کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے ایک صحت اور دوسری فراغت
Unknown

آپس میں باہم میل ملاقات

سلام کہنا
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اسلام میں کونسا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپؑ نے ارشاد فرمایا 
۔" کہ تو کھانا کھلائے اور ہر جاننے اور نہ جاننے والے کو سلام کہے "۔
بخاری ومسلم
ایک آدمی رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا السلام علیکم۔ تو آپؑ نے اس کا جواب دیا ، پھر وہ بیٹھ گیا۔ آپؑ نے فرمایا "اس کیلئے دس نیکیاں ہیں" ۔ پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمةاللہ ۔ تو آپؑ نے اس کا جواب دیا پھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپؑ نے فرمایا "اس کیلئے بیس نیکیاں ہیں"۔ پھر ایک اور آدمی آیااور اس نے کہا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ تو آپؑ نے اس کا جواب دیاپھر وہ بھی بیٹھ گیا ۔ آپؑ نےفرمایا "اس کیلئے تیس نیکیاں ہیں‘‘۔
ابو داؤد ، ترمذی
اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ! جو شخص پورا سلام نہیں کہتا وہ کتنا زیادہ اجر ضائع کر بیٹھتا ہے۔ اگر وہ پورا سلام ( السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ) کہے تو اسے تیس نیکیاں ملتی ہیں اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے ۔ گویا ایک مرتبہ پورا سلام کہنے سے ۳۰۰ نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ عطا کرسکتا ہے۔ لہذا اپنی زبان کو پورا سلام کہنے کا عادی بنائیں تاکہ اتنے بڑا اجروثواب سے مستفیذ ہو سکیں۔
اور مسلمان دن اور رات میں کئی مرتبہ سلام کہتا ہے،جب مسجد میں داخل ہوتومتعدد نمازیوں کو سلام کہنے کا موقعہ ملتا ہے ، اسی طرح جب ان سے جدا ہوتب بھی انھیں سلام کہے ، اسی طرح گھر میں آٓتے ہوئے اور پھر باہر جاتے ہوئے بھی سلام کہے ۔ ان تمام موقعوں پر اگرپورا سلام کہا جائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا زیادہ ثواب صرف اسی سلام کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے
اور یہ بات نہ بھولیں کہ جس طرح ملاقات کے وقت سلام کہنا مسنون ہے اسی طرح جدائی کے وقت بھی پورا سلام کہنا سنت ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے  ’’ تم میں سے کوئی شخص جب کسی مجلس میں جائے تو سلام کہے اور جب وہاں سے جانا چاہے تو بھی سلام کہے کیونکہ ملاقات جدائی سے زیادہ سلام کاحق نہیں رکھتی"۔
 ابو داؤد ، ترمذی
انسان اگر ہر نماز کے وقت سلام کا اہتمام کرے تو وہ دن اور رات میں بیس مرتبہ سلام کہہ سکتا ہے۔ پانچ مرتبہ گھر سے جاتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ، پانچ مرتبہ مسجد سے نکلتے ہوئے اور پانچ مرتبہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے ۔ جبکہ چوبیس گھنٹوں میں انسان کو کئی اور مقاصد کیلئے بھی گھر سے باہر جانا اور واپس آنا پڑتا ہے اور کئی لوگوں سے ہمکلام ہونے کا بھی موقعہ ملتا ہے اور کئی اور احباب سے فون پر بھی اس کا رابطہ ہوتا ہے توایسے تمام مواقع پر پورا سلام کہہ کر وہ بہت زیادہ نیکیاں کما سکتا ہے۔
چہرے پر مسکراہٹ لانا
ارشاد نبویؐ ہے" نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو ، خواہ تم اپنے بھائی کو مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہی ملو"۔
مسلم
مصافحہ کرنا
ارشاد نبویؐ ہے"دو مسلمان ملاقات کے وقت جب مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں"۔
ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ
امام نووی ؒکہتے ہیں کہ ہر ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا مستحب ہے
اچھی بات کرنا
فرمان الٰہی ہے :’’ وَقُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا ‘‘۔
الإسراء : ۵۳
۔"اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالا کریں،کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"۔
اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے "اچھی بات کرنا صدقہ ہے"۔
بخاری ،مسلم
اچھی بات میں ذکرکرنا، دعا کرنا، سلام کہنا،برحق تعریف کرنا، نیکی کا حکم دینا، سچ بولنااور نصیحت کرنا وغیرہ سب شامل ہیں۔
اچھی بات انسان پر جادو جیسا عمل کرتی ہے اور اسے راحت واطمینان پہنچاتی ہے۔
اچھی بات اِس کی دلیل ہوتی ہے کہ اس انسان کا دل نورِ ایمان اور ہدایت سے بھرا ہوا ہے۔

لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اچھی بات کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے ۔ اپنی بیوی ، اپنی اولاد ، اپنے پڑوسی ، اپنے دوست ، اپنے ماتحت ملازمین اور الغرض ان تمام لوگوں کے ساتھ اچھی بات کو معمول بنائے جن کے ساتھ اس کا دن اور رات میں کئی مرتبہ میل ملاپ ہوتا ہے۔
Unknown

غسل کا طریقہ

شریعت کی رو سے غسل سے مراد پاک پانی کا تمام بدن پر خاص طریقے سے بہانا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ دھو لو اور ہاتھ کہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لو اور اگر تم ناپاک ہو تو نہا لو اور اگرتم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا کوئی تم میں سے جائے ضروریہ سے آیا ہو یا عورتوں کے پاس گئے ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو اور اسے اپنے مونہوں او رہاتھوں پر مل لو الله تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا لیکن تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تاکہ اپنا احسان تم پر پورا کرے تاکہ تم شکر کرو
 القرآن سورۃ المائدہ:6

غسل کے 3 فرائض ہیں
      کلی کرنا
      ناک میں پانی ڈالنا
      پورے بدن پر پانی بہانا۔
غسل کا مسنون طریقہ
نیت کرے۔
بسم اللہ سے ابتداء کرے۔
دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔
استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے
تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔
اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔
غسل واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے۔

شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے پہلے اچھی طرح کلی کریں اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈالیں اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہائیں کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہے تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔

تالاب یا نہر میں غسل کا طریقہ تالاب
دریا یا نہر میں نہانے سے پہلے کلی کریں پھر ناک میں پانی ڈال کر خوب صاف کریں اور تھوڑی دیر اس میں ٹھہرنے سے غسل کی سب سنتیں ادا ہو جائیں گی۔ اور اگر تالاب اور حوض یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائیں تو بدن کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے غسل ہو جائے گا۔

 سر کے بالوں‌ کا دھونا
اگر غسل کرنے والی عورت کے سر کے بالوں کوکھولے بغیر پانی سر کی جلد تک بخوبی پہنچ جائے تو اس کے لیے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں۔ تاہم اگر گوندھے ہوئے بالوں کی تہ تک پانی نہ پہنچے تو پھر بالوں کا کھولنا واجب ہے۔

دوران غسل قرآنی آیات اور دعاؤں کا پڑھنا
غسل کرتے ہوئے انسان بالعموم ننگا ہوتا ہے اس لیے اس دوران قرآنی آیات یا دیگر کوئی دعا وغیرہ پڑھنا جائز نہیں یہاں تک کہ کوئی دنیوی کلام کرنا بھی منع ہے۔
غسل کے فرض ہونے کی صورت
مباشرت کے دوران مرد کے ذکر کی ٹوپی عورت کی فرج میں داخل ہونے سے مرد اورعورت دونوں پر غسل فرض ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔
احتلام کی صورت میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔
عورت حیض اور نفاس سے فارغ ہو تو اس پر غسل فرض ہے۔
مباشرت کے علاوہ کسی بھی دوسرے طریقے سے شہوت حاصل کرتے ہوئے انزال ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔
اگر شہوت کے علاوہ کسی دوسری وجہ مثلا محنت و مشقت یا کسی بیماری کی وجہ سے انزال ہو جائے تو غسل واجب نہیں، التبہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
اگر پتلی منی پیشاب کے ساتھ بغیر شہوت کے نکلی تو غسل فرض نہیں۔
سو کر اٹھنے کے بعد کپڑوں پر کچھ نشانات پائے گئے تو اس پر غسل کی چند سورتیں ہیں
اگر اس کے ودی یا مذی دونوں میں سے ایک کے ہونے کا یقین یا اِحتمال ہو تو غسل واجب نہیں۔
اگر یقین ہے کہ منی یا مذی نہیں کچھ اور ہے تو غسل واجب نہیں۔
اگر منی ہونے کا یقین ہے مگر مذی کا شک ہے اور اگر خواب میں احتلام ہونا یاد نہیں تو غسل ضروری نہیں ورنہ ہے۔

Unknown
بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.