Unknown
 ڈرون حملوں پر احتجاج کے لئے امریکی سینئر سفارتکار کی طلبی کے دوسرے ہی روز امریکہ نے اس کا جواب شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں پے در پے تین ڈرون حملوں سے دیا ہے جس میں 21 افراد جاں بحق، 15 زخمی ہو گئے۔ امریکہ نے پاکستان کے احتجاج کو نظرانداز کر کے میرانشاہ اور شوال کے مختلف مقامات پر تین ڈرون حملے کئے جن میں تین گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان ڈرون حملوں میں 10 میزائل داغے گئے
نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں
امریکہ ہمیں پہلے کئی بار کی باور کرائی گئی بات کی ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرا رہا ہے کہ ہم محکوم قوم ہیں اور محکوم کو حاکم کی کسی بات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔  بلکہ یہ تو در حقیقت سرا سر باغیانہ رویہ ہے اور لائق سزا ہے۔ دکھ کی بات یہ نہیں ہے کہ امریکہ یا دوسری مغربی طاقتیں ہمارے ساتھ ایسا رویہ روا رکھتے ہیں یا یہ کہ ہم تعمیر و ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں، یا ہم مغلوم ہیں یا ہماری طاقت بکھری ہوئی اور حامل انتشار ہے یا ہم بے انتہا مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ قوموں کی زندگیوں میں ایسے حالات آتے رہتے ہیں اور صاحب بصیرت قومیں نہ صرف انتہائی گہرائی سے ان مسائل و حالات کا تجزیہ کرتی ہیں بلکہ ان سے نکلنے کے لئے سالہا سال پہ محیط مستقل منصوبہ بندی بھی کرتی ہیں۔ اصل دکھ کی بات تو یہ کہ ہم زوال کی اس دلدل سے نکلنا ہی نہیں چاہتے ۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم  کی یہ سوئی ہوئی قوم آج بھی اسی طرح خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے جس طرح آج سے 65 سال پہلے تھی۔ فرق صرف اتناہے کہ اس وقت ہم مسلمانوں کو ڈبونے اورلوٹ مار کرنے والے ہندو اور انگریز تھے جب کہ آج یہ کام ہم پاکستانی خود کر رہے ہیں۔ لوٹ مار کی اس بھاگم بھاگ میں صرف پاکستانی سیاست دان شامل نہیں ہیں یہ وطیرہ پوری قوم کا امتیازی نشان بن چکا ہے۔  سیاست دانوں کی ملکی دولت تک رسائی ہے وہ اسے لوٹتے ہیں، کارخانے کے مالک کی اپنے ملازموں تک رسائی ہے وہ ان کا خون چوستا ہے۔ افسر کی ماتحت تک رسائی ہے وہ اسے کاٹنے میں لگا ہے۔ کسی کی بجلی چوری تک رسائی ہے وہ واپڈا کو لوٹنے میں مصروف ہے کسی کی جان پہچان سوئی گیس میں ہے اس کی سوئی گیس فری ہے اور کچھ بیچارے جن کی پہنچ میں کچھ بھی نہیں ہے وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہو کر اور اپنی اپنی ڈیوٹی میں اپنی نیندیں پوری کر کے اپنا امتیازی وطیرہ پورا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ قوموں کی زندگی میں زوال آنا برا نہیں ہے ۔ برا تو اس زوال کی وجوہات کا نہ جاننا ہے اور اس سے بھی برا اور ظالمانہ فعل زوال کے اسباب جاننے کے باوجود بھی ان کا تدارک نہ کرنا ہے۔
کچھ دن پہلے ایسے ہی کسی موضوع پہ بحث کے دوران میرے ایک بھائی کی مجھ سے ہلکی سی جھڑپ ہو گئی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ پاکستان کی زبوں حالی کا سارا کریڈٹ پاکستانی سیاست دانوں کو جاتا ہے جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ اگرچہ اسمیں ہمارے سیاست دان کا بہت حصہ ہے لیکن اس بات کا سہارا لے کر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیئے اور نہ ہی اپنی کی گئی لوٹ مار کے اوپر پردہ ڈالنے کی کو شش کرنی چاہیئے بلکہ جو حقیقت ہے اسے ماننا چاہیئے کہ اس ملک کو اس حال تک لے جانے میں ہم عوام کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہمیں انتہائی گہرائی میں جا کر اپنے اندر کی تمام بے ایمانیوں کو کھوجنا ہو گا۔ ہم کہاں کہاں سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں اسے ماننا ہوگا۔ اس عوام نے کہاں کہاں اپنی تقدیر کے غلط فیصلے کئےہیں انہیں جاننا ہو گا۔ آج میں نے اپنی ذمہ داریاں کتنی تندہی اور ایمانداری سے سرانجام دی ہیں ہر روز بستر پہ جانے سے پہلے اسکا محاسبہ کرنا ہو گا۔ اپنی سوچ کو خود اور صرف خود کے سدھار کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔  تب شاید کہیں جا کر ہم کسی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے لیکن اگر ہم سب اپنی بقا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ہوگا۔ قوموں میں انقلاب کسی جادو سے نہیں آتے درحقیقت وہ تو ان کی سوچ ان کے رویے اور انداز زندگی میں تبدیلی سے آتے ہیں اور یہ کام حکومتیں نہیں کرتیں میرے اور آپ جیسے عام لوگ عام عوام کرتے ہیں۔
یہاں پہ ایک گلہ اپنے میڈیا سے بھی ہے جو ہر وقت بادشاہ وقت کی ناعاقبت اندیشیوں کو کھوجنے میں برسرپیکار تو نظر آتا ہے لیکن عوام کے اجتمائی اور سیاسی گناہ کی پردہ پوشی کر جاتا ہے اور شاید یہ اس لئے ہے کہ یہ عوام ہی تو اسکی ناظرین میں شمار ہو تی ہے۔ اور اپنے ناظر کے سامنے اس کی عیب جوئی ہم پاکستانیوں کی فطرت کا خاصہ نہیں ہے۔ یا پھر میڈیا ہمیں مظلوم عوام کے درجے پہ دیکھتا ہے جیسے ایک ڈاکٹر ایک کوڑھی کو ترس بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ اور اگر میڈیا کی ایسی سوچ ہے تو وہ اسمیں حق بجانب ہے کیوںکہ ہم عوام کوڑکے ہی مرض میں تو مبتلا ہیں۔ لیکن یہ مرض ہماراخود کا طاری کردہ ہے اور ہمیں خود ہی اس سے نکلنے کی سبیل کرنا ہو گی۔ آج یا کل اور جتنی جلدی ہم اپنا محاسبہ کرنے میں کامیاب ہوں گے اتنی ہی جلدی ہمارا کوڑھ ختم ہو گا۔
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.