Unknown
کافی دنوں بعد آج پھر کچھ وقت اپنے ان دوستوں کے لئے نکال پایا ہوں جن سے میرا رشتہ اس بلاگ کے توسط سے ہے۔ حقیقتا میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ اپنی  مصروفیات میں اس بلاگ کے لئے وقت نہ نکال سکا ۔ وجوہات گنوانے پہ آؤں تو شاید ڈھیروں بن جائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ غمِ پیٹ نے کہیں کا نہ چھوڑا ۔ میں آج جب لکھنے کا سوچ رہا تھا تو ذہن میں یہی تھا کہ ایک معذرتی بلاگ لکھوں گا اور اپنے ان تمام دوستوں کے گلے شکوے دھونے کی کوشش کروں گا جو وقتا فوقتا میرے بلاگ کو دیکھتے اور پھر نئی تحریر کے موجود نہ ہونے کے سبب قدرے مایوسی سے بلاگ بند کر دیتے لیکن اوپر کی سطور لکھتے وقت ایک چھوٹا سا واقعہ ذہن کے پردے پہ ابھرا تو سوچا اسے ہی بلاگ کی زینت بنا دوں ۔ درحقیقت اس بلاگ کے زریعے میں اپنے وہ احساسات آپ دوستوں تک منتقل کرتا ہوں جو زندگی کی اس بھاگم بھاگ میں پردہ دل پہ نقش ہو جاتے ہیں۔
میں ان دنوں ایک بریڈ کمپنی کے لئے بطور سیلزمین کام کر رہا ہوں اورمیرے ساتھ ایک اوربندہ بطورڈرائیوراپنے فرائض سر  انجام دیتا ہے۔ کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ مارکیٹ سے واپسی رات گئے ہوئی۔ ابھی ہم نے تین حصے واپسی کا سفر ہی مکمل کیا ہو گا کہ گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا ۔ہم جس روڈ پر تھے وہاں ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی اور دوسرا رات کے اس وقت کوئی بھی انجان بندوں کو اپنے ساتھ لفٹ دینے کا رسک نہیں لے سکتا تھاچنانچہ ہم دونوں نے یہی فیصلہ کیا کہ جہاں تک ہمت ساتھ ہے یا پٹرول پمپ نہیں آ جاتا وہاں تک گاڑی کو دھکا لگاتے ہیں ۔ یہ کام کچھ زیادہ آسان نہیں تھا کیوں کہ بہت سی جگہوں پر سڑک اونچائی کی طرف تھی ایسی صورت میں گاڑی کو دو بندوں کا دھکیلناکافی مشقت طلب کام تھا لیکن مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق جب اور کوئی حل نہ سوجھا تو دھکا لگانا شروع کر دیا۔ اس دوران کئی گاڑیاں ہمارے پاس سے بھی گزریں لیکن کسی نے بھی مدد کرنے کی کوشش نہ کی ۔ دل کی شدید خواہش تھی کہ کوئی مہربان گاڑی والا ہماری گاڑی کو ٹوچین کر لیتا اور قریبی کسی پٹرول پمپ تک چھوڑ دیتا لیکن پندرہ منٹ تک دھکا لگانے کے باوجود نہ  ہی کوئی پٹرول پمپ نظر آیا اور نہ ہی کسی نے ہماری مدد کرنے کے بارے میں کوئی پیش رفت دکھائی۔ ایک توویسے ہی پورے دن کے تھکے ہارے تھے دوسرا اس دھکا بازی نے ہم دونوں کو توڑ کر رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ حوصلہ جواب دیتا ایک موٹرسائیکل سوار ہمارے پاس سے گزرا اور قدرے آگے جا کر رک گیا پھر اس نے اپنا موٹرسائیکل واپس موڑا اور ہماری طرف آنے لگا۔ قریب پہنچ کے اس نے وجہ دریافت کی تواسے بتایا کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے ۔ اس نے ہمیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا خود گاڑی کی پچھلی طرف گیا اور اپنی ایک ٹانگ  گاڑی کے پائیدان پہ رکھی اور اپنی موٹرسائکل کے ذریعے ہماری گاڑی کو دھکا دینا شروع کر دیا۔ اس وقت گاڑی میں بیٹھتے وقت جو سکون اور راحت محسوس ہوئی وہ لفظوں میں بیان کرنی ناممکن ہے۔ اس موٹر سائیکل والے کے لئے دل سے دعا نکلی ۔ ہمارا اور اس کا ساتھ تقریبا بیس منٹ پر مشتمل رہا پھر پٹرول پمپ آ گیا اور یوں ہمارا محسن ہم سے رخصت ہو گیا۔  ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اس نے ایک ایسی بات کہی جس نے ہم دونوں کو بہت متاثر کیا اور وہی بات آپ لوگوں کے گوش گزار کرنے کے لئے اتنی تمہید باندھی۔ وہ کہنے لگا کہ 

شکریہ کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ زندگی کی اس بھیڑ میں اور مادیت کے اس دور میں جہاں گناہ ثواب بھلائی برائی کی تفریق تقریبا ختم ہو چکی ہے وہاں اپنے اندر کے سکون اور گناہوں کے بوجھ تلے دبے دل کے اطمینان کے لئے چھوٹی چھوٹی نیکیاں بہت ضروری ہیں۔ میں اپنے اندر کے بےپناہ شور اور بےاطمینانی سے فرار حاصل کرنے کے لئے ایسی چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرتا ہوں حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں ہر انسان کو اپنے اندر کے بے پناہ دباؤ سے بچنے کے لئے نیکی کا ہی سہارا لینا چاہئے۔ بھلائی اور خیر کے کام ہی ہمارے اندر کی بے سکونی کو کم کر سکتے ہیں ورنہ مادیت سے جڑا آج کا انسان اندر سے اتنا ہی کھوکھلا ہے جتنی کہ ایک دیمک ذدہ لکڑی۔

وہ بظاہر ایک عام سا انسان تھا لیکن خود کو زندہ رکھنے کا جو طریقہ وہ اپنا رہا تھا حقیقتا ہم سب کو اس کی ضرورت ہے۔ خیر بھلائی اور نیکی کے یہ بےضرر کام جن پر نہ تو ہمارا زیادہ وقت صرف ہوتا ہے اور نہ ہی پیسہ ہمارے اندر کے الجھے انسان کو نہ صرف سلجھاتے ہیں بلکہ دل میں ایک خاص نرمی پیدا کرتے ہیں ۔ ہر انسان چاہے وہ جس مذپب سے بھی تعلق رکھتا ہے نیکی اس کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ زندہ رہنے کے لئے سانس خصوصا سٹیٹس کے خول میں جکڑے انسانوں کے لئے تو ایسی چھوٹی اور بےضرر نیکیاں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ 
Unknown

میں جب مسجد سے نکل کر گھر کے لیے روانہ ہونے لگی تو ایک بہن نے گھر تک میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ راستے میں اس نے ایک ایسی بات بتائی جس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
اس بہن نے بتایا، "میرا ایک بھانجا ہے جو پانچ سال سے کچھ ہی بڑا ہے۔ وہ میزوں، دیواروں اور دروازوں پر لکیریں بناتا رہتا ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ اس حرکت سے باز آ جائے، نرمی و سختی سے سمجھایا، مار پیٹ بھی کی مگر بے سود۔ جب میں نے آپ کے درسِ قرآن میں شمولیت اختیار کی اور اللہ سبحانہ کا یہ ارشاد
وَاِن مِّن شَيْءٍ اِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ وَلَـكِن لاَّ تَفْقَھُونَ تَسْبِيحَھُمْ (بنی اسرائیل 44:17)
ہمیں عمل کرنے کے لیے تفویض ہوا تو میں‌ اس آیت کو دہراتی رہتی تھی۔ مجھے اس بات کا بے حد اشتیاق تھا کہ میرے حواس اور جوارح میں سے کوئی ایک اس پر کسی طرح عمل کرئے، اس کے مطابق میری سوچ بنے، اس کے مطابق میرے اعضائے بدن کام کریں۔
"میں نے اپنے بھانجے کو دیکھا کہ وہ ایک نئی میز پر ہر طرف سے مارکر سے لائنیں لگا رہا ہے۔ اس نے میز پر لکیریں ہی لکیریں بنا دیں۔ میں نے بھانجے کو اپنے پاس بلا کر بڑے پیار اور سکون سے کہا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟ اس نے سخت حیرانی کے ساتھ میرے طرف دیکھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "سچ؟"میں نے اسے بتایا، جی ہاں، یہ بات ہمیں اللہ نے بتائی ہے، جو ہر چیز کو جانتا ہے۔ تم جانتے ہو کہ تم میز کو کتنا گندا کر دیا ہے؟"ضرور میز غصے میں ہے اور یہ اللہ کے حضور تمہارے خلاف شکایت کرئے گی۔"
"بچے نے میری طرف دیکھا، پھر میز کی طرف دیکھا۔ پھر اپنا کان میز سے لگا کر بولا، "مگر مجھے تو کوئی آواز نہیں آ رہی۔ میں تو کچھ بھی نہیں سن رہا۔۔"میں نے کیا، "مجھے معلوم ہے، یہ بات اللہ پاک نے بتا دی ہے کہ ہم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔"بچہ تھوڑی دیر ٹھہرا رہا۔ پھر اس نے ایک کپڑا اٹھایا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ میز صاف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ لیکن جوش و جذبے سے وہ میز صاف کر رہا تھا۔ اس کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی تا کہ وہ جلد از جلد میز کو مارکر کے نشانات سے صاف کر دے۔ پھر اس نے ایک اور کپڑا لیا اور دوسری نشان زدہ چیزوں کو صاف کرنے لگا۔ میں نے کہا، اب میں بھی تمہاری مدد کروں گی۔ بولا، "ہاں خالہ، آپ میری مدد کریں تاکہ ہم تمام چیزوں سے نشانات صاف کر دیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں تسبیح کرتی ہیں۔"
"شام کو اس کی والدہ ڈیوٹی سے واپس آئیں تو ان سے لپٹ گیا۔ کہنے لگا، "امی، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ میز تسبیح کرتی ہے؟"اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کی امی نے جواب دیا، "ہاں بیٹا، کیوں نہیں۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔"میرے بھانجے نے اب پہلے میری طرف دیکھا اور پھر کمرے کی ہر چیز کی طرف دیکھا۔ وہ جلد ہی گہری نیند سو گیا۔ اس دن کے بعد اس نے سوائے لکھنے کے مخصوص کاغذ کے سوا کبھی کسی چیز پر لکیریں نہیں لگائیں۔ اگ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں سے کہتا رہتا ہے کہ میں تسبیح کرتا ہوں۔ ایک بار میں نے خود سنا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے کہہ رہا تھا، "مجھے مت مارو، میں تسبیح کرتا ہوں۔"تو مجھے بہت ہنسی آئی اور میں شدتِ مسرت سے رو پڑی۔"
قرآنی آیات پر عمل کی بہت ضرورت ہے۔ قرآن مجید اللہ نے اتارا ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ جس بات کو ایک پانچ سال کے بچے نے سمجھ لیا، نہ جانے بڑی عمر کے لوگ اسے کب سمجھیں گے؟
  مندرجہ بالا سطور "محمد ظہیر الدین بھٹی" کی کتاب "قرآن پر عمل" سے ماخوز ہیں۔ دور حاضر میں ہم مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو کتاب مقدس سمجھ کر یا تو لحافوں میں لپیٹ کر زینت طاق کر دیا یا پھر اسے بس رٹے اور پڑھنے تک ہی محدود کر دیا۔ اس کی سمجھ بوجھ اس کا مقصد آمد دور کہیں ماضی کی گرد میں گم ہو کر رہ گیا۔ "قرآن پر عمل" آپ اردو ویب ڈیجیتل لائبریری پہ آن لائن بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یوآرایل درج ذیل ہے
میں نے اگرچہ ابھی تک مکمل کتاب کی ورق گردانی نہیں کی تاہم جتنی سطور بھی زیر نظر آئیں انہیں مفید سمجھتے ہوئے آپ حضرات کے لئے اس کتاب کو بہترین پایا اسی لئے شیئر کر دیا کہ شاید کسی کو تو سمجھ آ جائے۔اسی کتاب کی کچھ سطور کے ساتھ آج کی حاضری کو اختتام پذیر کرتا ہوں۔
ایک خدا ترس خاتون نے ایک بچی کو اپنے گھر میں رکھا۔ اس بچی کے ماں باپ غریب تھے جو اس کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر تھے۔ اس خاتون نے بچی کو اپنے گھر میں ہر طرح سے آرام سے رکھا۔ گھر میں خدمت کے لیے خادمہ پہلے سے موجود تھی۔ بچی کو پوشاک، خوراک اور تعلیم سبھی سہولتیں میسر تھیں، وہ لکھ پڑھ گئی، بڑی ہو گئی تو خاتون نے پہلی خادمہ کو فارغ کر دیا اور صبح سویرے نئی خادمہ کو سب کام ایک کاغذ پر لکھ کر دے دیئے۔ بچوں کو نہلانا، کپڑے استری کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ امیر عورت یہ کاغذ‌ دے کر مطمئن ہو گئی۔ جب وہ دوپہر کے وقت گھر واپس آئی تو دیکھا کہ نئی نوکرانی نے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ بلا کر پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے آپ کی تحریر کو بڑے احترام سے چوما ہے اور اسے بار بار پڑھتی رہی ہوں حتیٰ کہ یہ تحریر مجھے زبانی یاد ہو چکی ہے۔ یہ جواب سن کر امیر خاتون کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ کیا وہ اس جواب پر اس نوکرانی کو تنخواہ، پوشاک، خوراک اور رہائیش مہیا کرئے گی یا ناراض ہو کر اسے گھر سے باہر نکال دے گی؟ کیا ہم مسلمانوں کا قرآن مجید کے ساتھ طرزِ عمل اس نوکرانی جیسا نہیں ہے؟ ہم قرآنی آیات پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل نہیں کرتے۔ کیا اس صورت میں ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق قرار پا سکتے ہیں؟

Unknown
بہت پرانے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ملک پہ ایک نیک اور صالح بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک دفعہ دور کے ایک علاقے سے کچھ لوگ ایک وفد کی صورت اس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے جب ان کی آمد کا مقصد پوچھا تو انہوں نے نہایت ادب سے عرض کی کہ اے بادشاہ سلامت ہماری دو بستیاں ہیں جن کے درمیان ایک دریا حائل ہے جس سے ہمیں دو طرفہ آمدورفت میں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےاگر حضور ہم پہ نظر عنایت کرتے اور ہمیں اس کے اوپر ایک پل تعمیر کرا دیتے تو ہمیں اس تکلیف سے نجات مل جاتی۔ بادشاہ نےاسی وقت محکمہ تعمیرات کو حکم صادرکیا کہ مذکورہ مقام پہ فورا ایک پل تعمیر کیا جائے۔بادشاہ کا حکم تھا فورا کام شروع کر دیا گیا اور جلد ہی ایک نہایت شاندار پل تعمیر ہو گیا۔ وہاں کے لوگوں نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اورخوب دعائیں دی۔ پل کی تعمیر کو ابھی بس چند ہی ماہ گزرے تھے کہ مشیروں کے ایک ٹولے نے بادشاہ سلامت کو رائے دی کہ حضور اس پل کے ایک طرف سےآمدورفت پہ ٹیکس لگا دیا جائےتا کہ اس ٹیکس کو اسی طرح کے مذید کاموں  پہ استعمال کیا جا سکے۔  بادشاہ کو یہ مشاورت پسند نہ آئی لیکن مشیروں اور اہل دربار کی بار بار تکرار سےتنگ آ کر اس نے پل کے ایک طرف کی آمدورفت پہ بہت ہی قلیل سا ٹیکس لگا دیا۔ بادشاہ کاخیال تھا کہ اس سے وہاں کے لوگ چیخ و پکار کریں گے اور میرے پاس آئیں گے اور ان کی آمد کو جواز بنا کے میں ٹیکس معاف کر دوں  گا لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو بادشاہ قدرے متعجب ہوا۔  کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو وزراء نے پل کے دوسری طرف سے بھی ٹیکس لگانے کی تجویز دی۔ اب کی بار بادشاہ کو پورا یقین تھا کہ وہ لوگ میرے پاس دہائی لے کر ضرور آئیں گے لیکن اسے ایک دفعہ پھر تعجب و حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پل کے دونوں اطراف کی آمدورفت پہ ٹیکس لاگو ہو چکا تھا ۔ کچھ عرصہ مذید بیت گیا تو درباری امراء نے اس ٹیکس میں اضافے کی بات شروع کی۔ بادشاہ اس بات پہ رضامند نہیں تھا لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ ٹیکس میں اضافے سے ان لوگوں کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے بادشاہ نے ٹیکس میں اضافے کا اعلان کر دیا۔  لیکن اب کی بار بھی وہ بے حس لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ جب بادشاہ نے ان کی یہ بے حسی دیکھی تو اسے سخت تعجب کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا اور اس نے کوتوال کو حکم دیا کہ پل کے دونوں طرف کچھ سپاہی تعینات کئے جائیں جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جوتے ماریں۔ بادشاہ کے حکم کی فوری تعمیل کر دی گئی اور پل کے دونوں اطراف سپاہی تعینات کر دئے گئے جو ہر آنے جانے والے کو دو دو جاتے رسید کرتے۔ اب کی بار بادشاہ کا خیال تھا کہ وہ لوگ ضرور چیخ و پکار کریں گے لیکن اس دفعہ بھی بادشاہ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔  بادشاہ نے غصے میں نہ صرف یہ کہ ٹیکس دوگنا کرنے کا اعلان کر دیا بلکہ ساتھ ساتھ جوتوں کی تعداد بھی بڑھا دی۔ کچھ دن بعد اسے یہ اطلاع ملی کہ پل والے علاقے سے کچھ افراد پہ مشتمل وفد بادشاہ سلامت کی خدمت اقدس میں حاضری کا طلبگار ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا ۔ اسنے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کہ جب وہ لوگ ٹیکس کی بابت اور جوتوں کی بابت معافی کی بات کریں گے تو میں ان کا ٹیکس اور جوتوں کی سزا دونوں معاف کر دوں  گا۔ کچھ ہی لمحوں بعد لوگوں کا ایک وفد دربا میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی خدمت اقدس میں نہایت ادب و احترام سے سلام عرض کیا۔  بادشاہ سلامت نے جب آنے کا مدعا چاہا تو ان لوگوں نے عرض کی 
۔" بادشاہ سلامت ہم آپ کے پاس یہ عرضی لے کر آئیں ہیں کہ پل پر تعینات سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تاکہ جوتے مارنے میں جلدی ہو سکے اور جوتوں کے انتظار میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ نہ ہو"۔


 آج بھی وہی بادشاہ ہے، وہی پل ہے اور وہی ٹیکس میں اضافےہی اضافے اور وہی مہنگائی کے جوتوں کی اضافی تعداد جس میں ہر دو چار ماہ کے بعد اضافہ کر دیا جاتا ہے اور سب سے آخر میں وہی ہم بے حس کے بےحس اور بادشاہ کا وہی غصیلا حکم "اور جوتے مارو انہیں کہ اسی لائق ہیں یہ"۔
Unknown
جنگل کا باشاہ شیر حسب دستور دربار لگائے انتہائی طمطراق سے اپنے تخت پہ جلوہ افروز تھا۔ وزیران و مشیران کا ایک جمگھٹا بادشاہ سلامت کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ جنگل کے عمومی و خصوصی مسائل زیر بحث تھے کہ اچانک داروغہ دربار نے کسی بندر کے آنے کی اطلاع دی۔بادشاہ کے وزراء نے ایک اجتماعی ناگوای سے داروغہ دربار کو دیکھا۔ انہیں شاید اس ناعاقبت اندیش کی یہ ادا بری لگی تھی کہ وہ سب انتہائی اہم معاملات پہ غوروفکر میں مصروف تھے جبکہ داروغہ کو ایک بندر کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ تاہم بادشاہ سلامت کے روبرو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے سارے چپ ہی رہے۔
۔"کون ہے وہ اور کیا چاہتا ہے"۔ شیر  یعنی بادشاہ سلامت نے انتہائی سخت گرجدار آواز میں پوچھا
۔"جناب انتہائی خستہ حال ایک غریب بندر ہے کسی معاملے میں بادشاہ سلامت کی مدد مانگنے آیا ہے"۔ داروغہ نے انتہائی ادب سے گوش گزار کیا
۔"لیکن تمہیں پتا نہیں تھا کہ ہم انتہائی اہم ملکی مشاورت میں مصروف ہیں تم نے اسے رفع دفع کر دینا تھا"۔ باشاہ کا ایک وزیر انتہائی نخوت سے بولا
۔"حضور بالکل معلوم تھا لیکن اس کی کیفیت و حالت دیکھ کر مجھے اس پہ ترس آ گیا اور اسے بے مراد بھیجنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ "۔ داروغہ دربار نے ایک بار پھر ادب سے جواب دیا
۔" ٹھیک ہے اندر بھیجو اسے لیکن اسے سمجھا دینا کہ ہمارا وقت کتنا قیمتی ہے (اور وہ کتنا بے قیمت ہے) بات مختصر اور جامع کرے تا کہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو"۔ بادشاہ سلامت نے گویا احسان عظیم کیا۔ داروغہ ادب سے سلام کہتا باہر نکل گیا اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک بندر انتہائی خستہ حالت، بکھرےبال اور پریشان چہرے کے ساتھ دربار عالی میں حاضر ہو۔ اس کے چہرے اور لباس و حالت کو دیکھ کر تمام درباریوں کے چہروں پہ پڑا ناگواری کا احساس اور شدید ہو گیا۔ بادشاہ جو نووارد کو غور سے دیکھ رہا تھا انتہائی رعب و دبدبے سے گویا ہوا
۔" کہو کیا کہنا ہے اور یاد رکھو بات جامع اور مختصر ہو"۔
۔" حضور۔۔ میرا بھرا پرا خاندان ہے۔ اور ہم سب ایک ہی جگہ ایک ہی چھت تھلے انتہائی خوشی و راحت سے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ سبھی خوش و خرم تھے اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد بھی کیا کرتے تھے ۔پھر اچانک یوں ہوا کہ ہمارے گھر کا سکون آہستہ آہستہ جانے لگا ایک عجیب سی سرد مہری دلوں میں آگئی۔ہمارے درمیاں بظاہر کوئی دشمنی نہیں ہے کوئی اختلاف نہیں ہے پھر بھی دل ایک دوسرے سے بیزار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بڑی کوشش کی کہ اس منفی پہلو کی وجہ کا پتا لگایا جا سکے لیکن ہم سب ناکام رہے آخر مجبورا میں حضور کی خدمت اقدس میں یہ درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آپ اپنی طاقت و عقلمندی اور دور اندیشی سے اس معاملہ کا کوئی حل نکالیں تا کہ ہمارے گھر کا سکون دوبارہ بحال ہو سکے"۔ بندر کا دکھ اس کے لہجے سےعیاں تھا۔ اپنی تکلیف بادشاہ سلامت کے حضور گوش گزار کرنے کے بعد وہ نہایت امید  بھری نظروں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھنے لگا۔بادشاہ سلامت کچھ دیر تو معاملے کو سمجھنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے اور جب کوئی بات پلے نہ پڑی تو اس معاملے کو وزیر باتدبیر کے سپرد کرنے کا سوچا۔
۔"وزیر محترم "۔
۔" جی حضور"۔ وزیر اعظم دست بدستہ کھڑے ہو گئے۔
۔" آپ ایسا کریں ایک کمیشن بنائیں جو معاملے کے تمام پہلوؤں کی مکمل چھان بین کرے اور پھر ایک تفصیلی رپورٹ آپ کے گوش گزار کرے تا کہ اس غریب بندر کے مسئلے کا مناسب حل نکالا جا سکے"۔
۔" بہت اچھا اور عمدہ خیال ہے حضور کا اس سے نہ صرف پورا مسئلہ سامنے آ جائے گا بلکہ اس کے تکمیلی حل کے لئے مناسب اقدامات کرنے میں بھی آسانی رہے گی"۔ خوشامدی ٹولے نے اپنے کام کا آغاز کیا
 باشاہ سلامت کے حکم کے مطابق ایک کمیشن کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا۔وزیر باتدبیر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چچیرے بھائی کے بیٹے کو اس  کمیشن کا سربراہ مقرر کیا اب باری تھی ممبران کی تشکیل کی تو یہ معاملہ کچھ یوں ترتیب پایا کہ اہل دربار میں سے جو حضرات صاحب حیثیت تھے اور وزیر با تدبیر کی خوب خاطر تواضع کی اہلیت رکھتے تھے ان کے مشورہ خاص سے ممبران کا چناؤ کیا گیا اور یوں پندرہ ممبران پہ مشتمل کمیشن کی تشکیل کا یہ پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔
اگلے دن پندرہ ممبران پہ مشتمل یہ کمیشن متاثرہ بندر کے گھر تحقیق و تفتیش کے لئے پہنچ گیا۔ بندروں کے خاندان نے ان کی خوب خاطر طواضع کی کہ وہ انہیں اپنا مسیحا سمجھ رہے تھے۔ حتیُ المقدور فیض یاب ہونے کے بعد کمیشن نے ایک لمبا سلسلہ سوالات و جوابات شروع کیا اور کافی دیر کی بحث و تمحیص کے بعد وہاں سے بغیر کسی انجام تک پہنچے روانہ ہو گیا۔ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا لیکن حل تھا کہ ندارد۔ جب بندروں نے یہ دیکھا تو مایوسی کے ساتھ ساتھ ان کی الجھن بھی بڑھنے لگی۔ حتیٰ کہ بات تلخ کلامی تک آ پہنچی۔ جب بوڑھے بندر نے یہ حالت دیکھی کہ کمیشن کے آنے سے بجائے پہلے مسئلے کے حل کے مذید مسئلوں نے جنم لینا شروع کر دیا تو وہ ایک بار پھر بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر خدمت ہوا۔
۔" تمہارے مسئلے کا کیا ہوا "۔ بادشاہ نے جب بندر کو سرجھکائے اپنے سامنے دیکھا تو رعب سےگویا ہوا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے لیکن حضور میرا مسئلہ بجائے سلجھنے کے مذید الجھ گیا ہے"۔ بوڑھے بندر نے ڈرتے ڈرتے عرض کی اور پھر بادشاہ سلامت کو متوجہ پا کر سارا ماجرہ گوش گزار کر دیا
۔" وزیر با تدبیر یہ بندر کیا کہ رہا ہے۔ اس کا مسئلہ ابھی تک کیوں حل نہیں ہوا"۔ بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے توجیہ مانگی
۔" حضور ہم نے سلظنت کے قابل ترین جانوروں کا انتخاب کیا تھا لیکن لگتاہے بندر کا مسئلہ زیادہ گھمبیر اور توجہ طلب ہے"۔ وزیر نے ادب سے عرض کی جس پہ بادشاہ سلامت نے ایک لمبی سی "ہوں" بھری اور کچھ دیر متفکر نظروں سے بندر کو گھورنے  کے بعد یکدم اپنے تخت سے کھڑے ہو گئے۔
۔" ہمیں اپنے وزیر با تدبیر کی بات سے مکمل اتفاق ہے اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کی بار دو نئے کمیشن بنائے جائیں ایک کمیشن پہلے کمیشن کے ساتھ ملکر مسئلے کی نوعیت اور اس کا حل نکالے گا اور دوسرا کمیشن ان دونوں کمیشن کی کارکردگی پہ نظر رکھے گا"۔ چاروں طرف سے بادشاہ کی دانائی و عقلمندی کے نعرے بلند ہوئے جب کہ بوڑھے بندر کے چہرے پہ چھائے تفکر کے سائے مذید گہرے ہو گئے۔
ایک بار پھر وہی صبح شام کا چکر اور وہی بندروں کی عرق ریزی سے کی گئی خاطرتواضع اور وہی بغیر کسی انجام کے کام۔ بندروں نے اچھے دنوں میں جو جوڑرکھا تھا وہ سب کمیشنوں کی خاطر تواضع میں خرچ ہو گیا یہاں تک کہ جب نوبت خود کے فاقوں اور کمیشن کے نا ختم ہونے والے تقاضوں تک جا پہنچی تو اس بوڑھے بندر کو ایک دفعہ پھر بادشاہ سلامت کے حضور حاضر ہونا پڑا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے۔ حضورعالی مقام میری قوم اب فاقہ کشی کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے اور حضور کے بنائے گئے کمیشن تاحال کسی بھی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں"۔ بندر نے کانپتے لہجے کے ساتھ اپنا معاملہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کیا
۔" تم ہوش میں تو ہو  پتاہے کیا کہ رہے ہو اور کس کے سامنے کہ رہے ہو"۔ وزیر نے بادشاہ کے بولنے سے پہلے ہی بوڑھے بندر کی بات اچک لی۔ "حضور مجھےتو یہ بوڑھا بندر انتہائی مکار اور چالاک لگتاہے ۔اس نے ہمیں صرف الجھانے اور مملکت کے امور سرانجام دینے سے روکنے کے لئے یہ چال چلی ہے ۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں" ۔ بوڑھا بندر یہ کایا پلٹ دیکھ کر حیران رہ گیا اس سے پہلے کہ وہ اپنے تحفظ میں کچھ کہتا کہ بادشاہ سلامت کی گرجدار آواز سنائی دی
۔"اس بوڑھے بندر کو گرفتار کر لو اور ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھاؤ ۔ اگر وزیر با تدبیر کی بات سچ ثابت ہوئی تو اسے سر عام پھانسی دی جائے گی"۔چنانچہ ایک اور کمیشن ترتیب دیا گیا جس نےاس بات کی تحقیق کرنا تھی کہ آیا بندر کو حقیقتا مسئلہ درپیش تھا کہ نہیں۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلے نے وجود لیا کسی کو بھی اب یہ یاد ہی نہیں تھا کہ اصل مسئلہ کیا تھا اور کہاں سے شروع ہوا۔ چنانچہ نیا وجود پانے والے کمیشن نے قید خانے کا رخ کیا جہاں بوڑھا بندر قید تھا۔ جب معاملہ بوڑھے بندر کے سامنے آیا تو اس نے یکلخت مکمل چپ سادھ لی بہت کوشش کی گئی کہ وہ کچھ بولے لیکن بندر ہنوز خاموش رہا ۔ آخر اسے قصور وار گردانتے ہوئے اسے سرعام پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔
اس بوڑھے بندر کی قوم کے سارے بندر اس دن سے خاموش ہیں۔کمیشن پہ کمیشن بنتے جارہے ہیں اور بندر سرعام پھانسی چڑھتے جا رہے ہیں لیکن کوئی کچھ بولنے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ نجانے کیوں؟۔
Unknown


۔"آج پتا ہے کیا ہوا"۔ میں جو ابھی ابھی کام سے گھر لوٹا تھا اپنی بیوی کی سرگوشی بھری آواز سن کر چونک گیا
۔"لگتا ہے کوئی خاص بات ہے "۔ 
۔" ہاں نا"۔ وہ اب میرے قریب آ کے بیٹھ گئی اور میں جو جوتے اتارنے کے بعد واش روم کا رخ کرنے والا تھا اس کا یہ راز دارانہ انداز دیکھ کے وہیں بیٹھ گیا۔ بہت ساری عورتوں کی طرح کہ اب جب تک وہ پوری بات مجھے بتانہ دیتی اسےآرام آنے والا نہیں تھا۔ لہٰذا مناسب یہی تھا کہ میں اس نیک بخت کے اندر کے اس راز کو سننے کے بعد ہی غسل خانے کا رخ کرتا۔
۔"وہ نئیں ہے خالہ سکینہ  ۔۔۔۔ ارے وہی جو اس دن ہمارے گھر بھی آئیں تھیں اور بریانی بھی لائی تھیں"۔صحیح اچھی طرح یاد دہانی کرانا ضروری تھا کہ کہیں میں کسی کی نیکی کسی اور کے کھاتے میں نا ڈال دوں ۔ " اس کی پڑوسن ہے نا نجمہ پتا ہے اس نے آج کیا کیا"۔ اس نے میرے تجسس کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اب میں اسے کیا کہتا کہ سارے دن کا تھکا ہارا بندہ سب سے پہلے تازہ دم ہونے کے لئے واش روم کی طرف جانا چاہے گا نہ کہ خالہ سکینہ یا نجمہ کے قصے سننا پسند کرے گا لیکن ایک تابعدار اور پر امن شوہر کی طرح میں نے اپنے چہرے پہ تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی اور شاید میں اس میں کامیاب بھی رہا تھا۔
۔"اس کا کسی سے معاشقہ چل رہا تھا اور اس کے شوہر نے اسے پکڑ لیا بس پھر کیا تھا یہ مار اور وہ مار دونوں میں خوب جھگڑا ہوا اور وہ اپنے میکے چلی گئی ہے۔ توبہ توبہ عورت جب بگڑنے پہ آئے تو اچھے بھلے مرد کی عزت کو مٹی میں رول دیتی ہے"۔  وہ اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی
۔" یہ سب عجیب و غریب اور پھپھہ کٹنیوں والی باتیں تم عورتوں تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ گھر کس کا ، بات کس کی اور سنا کوئی رہا ہے۔ بڑی بری عادت ہے یہ "۔ حسب دستور میں نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینی ہے ۔ " اور یہ بات تم نے آگے کتنوں کو بتائی ہے" میں نے اچانک یاد آنے پہ اسے کریدنا چاہا۔
۔" میں کوئی چغل خور تھوڑی ہوں جو کسی کی بات کسی کو بتاتی پھروں اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے"۔ اس نے  قدرے برا مناتے ہوئے کہا اگرچہ مجھے اس کی اس بات سے اتفاق نہیں تھا تاہم میں نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور  خاموشی اختیار کر لی۔
خالہ سکینہ ہمارے محلےکی ایک انتہائی فعال اور متحرک شخصیت ہیں۔ ہر کسی کے گھر میں ان کا آنا جانا تھا۔ انتہائی ملنسار، ہمدرد اور خدمت گزار قسم کی عورت ہیں اورادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرنا خالہ کا ایک اضافی وصف تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ عورتیں خالہ کی صحبت پسند بھی بہت کرتی تھیں یہ سوچے بغیر کہ جو خالہ ان کے سامنے سکینہ، علینہ، راحیلہ کی بات کرتی ہے اور ان کی عیب جوئی کرتی ہے وہ سکینہ، علینہ اور راحیلہ کے سامنے ہماری بھی تو اسی طرح عیب جوئی کرتی ہو گی۔ لیکن بس اللہ ہدایت دے اس مخلوق کو کہ وہی انہیں ہدایت دے سکتا ہے۔تو بات ہو رہی تھی خالہ سکینہ کی ۔ خالہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی کچھ سال پہلے ہی خالہ نے شادی کر دی تھی اور اب اپنےچھوٹے بیٹے کے ساتھ مقیم تھیں۔ سنی سنائی بات ہے کہ خالہ کی ا پنی بڑی بہو سے ان بن لگی رہتی تھی اور روزانہ ہی لڑائی جھگڑا بلکہ گھمسان کا رن پڑتا تھا آخر بڑے بیٹے نے تنگ آ کر اپنا الگ گھر لے لیا اور اب وہ دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے۔ہاں البتہ خالہ ابھی تک اپنی بہو کو معاف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میں ایک دفعہ پھر گوش گزار کر دوں یہ سنی سنائی باتیں ہیں اور خالہ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی باتوں کا گمان کرنا کچھ زیادہ مناسب معلوم نہیں پڑتا۔
اس کے بعد بھی بہت دفعہ اپنی زوجہ محترمہ سے خالہ کے مستند حوالے کے ساتھ بہت سارے واقعات سننے کو ملتے رہے۔ کہیں کسی بیوی نے خاوند کی ٹھکائی کی تو کہیں خاوند نے اپنی بیوی پہ ظلم کی انتہا کر دی، کہیں ساس بہو کا مسئلہ تو کہیں  اڑوسی پڑوسی میں ان بن الغرض ہر تیسرے روز خالہ کے توسط سے حالات محلہ سے ہم لوگ آگاہ ہوتے رہے اس امید کے  ساتھ کہ محلے کے کسی بھی گھر میں ہم میاں بیوی موضوع بحث نہیں ہوں گے اگرچہ اس کا امکان آٹے میں نمک کے برابر ہی تھا تاہم اچھا گمان صحت کے لئے ضروری ہے۔
اس روز میری طبیعت کچھ بوجھل سی تھی اور تھوڑی بہت کھانسی بھی تھی۔ میں نے دفتر سے چھٹی کر لی۔ ارادہ یہ تھا کہ دن میں کسی ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرا لوں گا۔ یہ تقریباَ کوئی دن گیارہ بجے کا وقت ہو گا جب مجھے محلے میں سے کسی کے  رونے اور واویلا کرنے کی آواز سنائی دی۔  ہم دونوں میاں بیوی یہ آوازیں سن کر پریشان ہو گئے اور میں حال احوال دیکھنے باہر نکل گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی کے گھر ماتم بچھ گیا ہو۔ دل ہی دل میں جب میں اللہ خیر کرتا وہاں پہنچا جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں تو بہت سارے لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر مجھے اپنے اندازہ کی درستگی کا گمان ہوا کہ واقعی شاید کوئی فوتگی ہو گئی ہےلیکن جب قریب گیا تو جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ حیران و پریشان کرنے کے لئے کافی تھا۔خالہ سکینہ اس ہجوم کے درمیان میں آلتی  پالتی مارے کسی کو کوسنے میں مصروف تھیں۔کچھ لوگ خالہ کو حوصلہ دلاسہ دینے میں مصروف تھے لیکن خالہ تھی کہ ایک ہی سپیڈ سے کسی مراد نامی بندے کو نامراد کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔میں نے جب یہ حالت دیکھی تو ماجرا جاننا چاہا تب وہ بات پتا چلی جسے کے لئے اوپر کی تمام سطور آپ قارعین کے گوش گزار کی ہیں اور جو اس ساری تحریر کا لب لباب ہے۔میں نے آپکو بتایا تھا کہ خالہ کی ایک بیٹی بھی ہے جو کہ شادی شدہ تھی جس بندے سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ خالہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور دونوں کی پسند کی شادی تھی جسے خاندان کی سند قبولیت بھی حاصل تھی یوں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب شادی تھی اور دونوں میاں بیوی نے پچھلے تین سالوں میں یہ بات ثابت بھی کر دی کہ وہ دونوں ایک کامیاب شادی شدہ جوڑا ہیں۔ دونوں ہی میں بڑا پیار تھا اور پھر خالہ سکینہ کے داماد  مراد نے اپنی بیوی کے لئے گھر بھی علیحدہ لیا تھا تا کہ اگر کبھی اس کی بیوی اور اس کے ماں باپ کے درمیاں کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کی بیوی کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ پچھلے تین سالوں میں ان دونوں کے درمیاں کسی بھی قسم کا کوئی بھی جھگڑا سننے میں نہیں آیا یا کم از کم ایسا کوئی جھگڑا تو ہر گز ہرگز نہیں تھا جس سے نوبت یہاں تک آ پہنچتی۔سبھی حیران تھے کہ آخر مراد کو ایسا کیا ہوا ہے یا خالہ سکینہ کی بیٹی سے ایسی کیا غلطی سرزد ہو گئی کہ بات اتنی بڑھ گئی۔ میں نے ہجوم پہ ایک طائرانہ نظر دوڑائی تو مجھے ان میں خالہ کا بڑا بیٹا بھی نظر آ گیا جو ایک طرف کھڑا خاموشی سے اپنی بہن کے اجڑنے کا تماشا دیکھ رہا تھا۔میں اپنے دکھ کا اظہار کرنے اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ تب اس نے مجھے وہ بات کہی جو ایسی کہانیوں کا انجام ہوتی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ
۔" مجھے اپنے ماں کے دکھ پہ کوئی دکھ نہیں ہے لیکن اپنی بےقصور بہن کے اجڑنے کا بہت دکھ ہے۔میں مراد کو بھی برا بھلا نہیں کہوں گا کیوں کہ اسے واقعی میری بہن سے محبت تھی اور اس نے اپنے شوہر ہونے کے وہ سارے حقوق ادا کئے جو کوئی بھی اچھا شوہر ادا کرے گا۔  دل بھر گیا ہے میرا ۔۔۔ یہ الفاظ تھے مراد کے جب اس نے میری بہن کو طلاق دی ۔کیا کبھی آپ نے کسی ایسے بندے کے منہ سے اپنی اس بیوی کے لئے ایسے الفاظ سنے ہیں جس سے اس نے پسند کی شادی کی ہو پھر اسے عزت اور محبت سے رکھا ہو ، دیوانوں کی طرح اسے پیار کرتا ہوں اور پھر بس تین ہی سالوں میں اس کا جی بھر جائے ایسا کبھی سنا ہے آپ نے۔یقینا نہیں سنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے دل کے اوپر سیاہ دھبے بن گئے تھے جنہوں نے اس کے دل سے میری بہن کی محبت کو نکال باہر کیا اور یہ سیاہ دھبے پتا ہے کیا ہیں۔۔۔ یہ میری ماں کی وہ چغلیاں ہیں جو وہ گھر گھر جا کر لگاتی تھی۔ اس کی نظر میں کسی کی عزت و حمیت کا کوئی خیال نہیں تھا تو پھر قدرت اس کی عزت و حمیت کا خیال کیسےکرے گی"۔
بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.