Unknown


۔"آج پتا ہے کیا ہوا"۔ میں جو ابھی ابھی کام سے گھر لوٹا تھا اپنی بیوی کی سرگوشی بھری آواز سن کر چونک گیا
۔"لگتا ہے کوئی خاص بات ہے "۔ 
۔" ہاں نا"۔ وہ اب میرے قریب آ کے بیٹھ گئی اور میں جو جوتے اتارنے کے بعد واش روم کا رخ کرنے والا تھا اس کا یہ راز دارانہ انداز دیکھ کے وہیں بیٹھ گیا۔ بہت ساری عورتوں کی طرح کہ اب جب تک وہ پوری بات مجھے بتانہ دیتی اسےآرام آنے والا نہیں تھا۔ لہٰذا مناسب یہی تھا کہ میں اس نیک بخت کے اندر کے اس راز کو سننے کے بعد ہی غسل خانے کا رخ کرتا۔
۔"وہ نئیں ہے خالہ سکینہ  ۔۔۔۔ ارے وہی جو اس دن ہمارے گھر بھی آئیں تھیں اور بریانی بھی لائی تھیں"۔صحیح اچھی طرح یاد دہانی کرانا ضروری تھا کہ کہیں میں کسی کی نیکی کسی اور کے کھاتے میں نا ڈال دوں ۔ " اس کی پڑوسن ہے نا نجمہ پتا ہے اس نے آج کیا کیا"۔ اس نے میرے تجسس کو ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اب میں اسے کیا کہتا کہ سارے دن کا تھکا ہارا بندہ سب سے پہلے تازہ دم ہونے کے لئے واش روم کی طرف جانا چاہے گا نہ کہ خالہ سکینہ یا نجمہ کے قصے سننا پسند کرے گا لیکن ایک تابعدار اور پر امن شوہر کی طرح میں نے اپنے چہرے پہ تجسس اور دلچسپی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی اور شاید میں اس میں کامیاب بھی رہا تھا۔
۔"اس کا کسی سے معاشقہ چل رہا تھا اور اس کے شوہر نے اسے پکڑ لیا بس پھر کیا تھا یہ مار اور وہ مار دونوں میں خوب جھگڑا ہوا اور وہ اپنے میکے چلی گئی ہے۔ توبہ توبہ عورت جب بگڑنے پہ آئے تو اچھے بھلے مرد کی عزت کو مٹی میں رول دیتی ہے"۔  وہ اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولی
۔" یہ سب عجیب و غریب اور پھپھہ کٹنیوں والی باتیں تم عورتوں تک کیسے پہنچ جاتی ہیں۔ گھر کس کا ، بات کس کی اور سنا کوئی رہا ہے۔ بڑی بری عادت ہے یہ "۔ حسب دستور میں نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینی ہے ۔ " اور یہ بات تم نے آگے کتنوں کو بتائی ہے" میں نے اچانک یاد آنے پہ اسے کریدنا چاہا۔
۔" میں کوئی چغل خور تھوڑی ہوں جو کسی کی بات کسی کو بتاتی پھروں اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو وقت ہوتا ہے"۔ اس نے  قدرے برا مناتے ہوئے کہا اگرچہ مجھے اس کی اس بات سے اتفاق نہیں تھا تاہم میں نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور  خاموشی اختیار کر لی۔
خالہ سکینہ ہمارے محلےکی ایک انتہائی فعال اور متحرک شخصیت ہیں۔ ہر کسی کے گھر میں ان کا آنا جانا تھا۔ انتہائی ملنسار، ہمدرد اور خدمت گزار قسم کی عورت ہیں اورادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کرنا خالہ کا ایک اضافی وصف تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ عورتیں خالہ کی صحبت پسند بھی بہت کرتی تھیں یہ سوچے بغیر کہ جو خالہ ان کے سامنے سکینہ، علینہ، راحیلہ کی بات کرتی ہے اور ان کی عیب جوئی کرتی ہے وہ سکینہ، علینہ اور راحیلہ کے سامنے ہماری بھی تو اسی طرح عیب جوئی کرتی ہو گی۔ لیکن بس اللہ ہدایت دے اس مخلوق کو کہ وہی انہیں ہدایت دے سکتا ہے۔تو بات ہو رہی تھی خالہ سکینہ کی ۔ خالہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کی کچھ سال پہلے ہی خالہ نے شادی کر دی تھی اور اب اپنےچھوٹے بیٹے کے ساتھ مقیم تھیں۔ سنی سنائی بات ہے کہ خالہ کی ا پنی بڑی بہو سے ان بن لگی رہتی تھی اور روزانہ ہی لڑائی جھگڑا بلکہ گھمسان کا رن پڑتا تھا آخر بڑے بیٹے نے تنگ آ کر اپنا الگ گھر لے لیا اور اب وہ دونوں میاں بیوی خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے۔ہاں البتہ خالہ ابھی تک اپنی بہو کو معاف کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ میں ایک دفعہ پھر گوش گزار کر دوں یہ سنی سنائی باتیں ہیں اور خالہ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی باتوں کا گمان کرنا کچھ زیادہ مناسب معلوم نہیں پڑتا۔
اس کے بعد بھی بہت دفعہ اپنی زوجہ محترمہ سے خالہ کے مستند حوالے کے ساتھ بہت سارے واقعات سننے کو ملتے رہے۔ کہیں کسی بیوی نے خاوند کی ٹھکائی کی تو کہیں خاوند نے اپنی بیوی پہ ظلم کی انتہا کر دی، کہیں ساس بہو کا مسئلہ تو کہیں  اڑوسی پڑوسی میں ان بن الغرض ہر تیسرے روز خالہ کے توسط سے حالات محلہ سے ہم لوگ آگاہ ہوتے رہے اس امید کے  ساتھ کہ محلے کے کسی بھی گھر میں ہم میاں بیوی موضوع بحث نہیں ہوں گے اگرچہ اس کا امکان آٹے میں نمک کے برابر ہی تھا تاہم اچھا گمان صحت کے لئے ضروری ہے۔
اس روز میری طبیعت کچھ بوجھل سی تھی اور تھوڑی بہت کھانسی بھی تھی۔ میں نے دفتر سے چھٹی کر لی۔ ارادہ یہ تھا کہ دن میں کسی ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرا لوں گا۔ یہ تقریباَ کوئی دن گیارہ بجے کا وقت ہو گا جب مجھے محلے میں سے کسی کے  رونے اور واویلا کرنے کی آواز سنائی دی۔  ہم دونوں میاں بیوی یہ آوازیں سن کر پریشان ہو گئے اور میں حال احوال دیکھنے باہر نکل گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی کے گھر ماتم بچھ گیا ہو۔ دل ہی دل میں جب میں اللہ خیر کرتا وہاں پہنچا جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں تو بہت سارے لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر مجھے اپنے اندازہ کی درستگی کا گمان ہوا کہ واقعی شاید کوئی فوتگی ہو گئی ہےلیکن جب قریب گیا تو جو میری آنکھوں نے دیکھا وہ حیران و پریشان کرنے کے لئے کافی تھا۔خالہ سکینہ اس ہجوم کے درمیان میں آلتی  پالتی مارے کسی کو کوسنے میں مصروف تھیں۔کچھ لوگ خالہ کو حوصلہ دلاسہ دینے میں مصروف تھے لیکن خالہ تھی کہ ایک ہی سپیڈ سے کسی مراد نامی بندے کو نامراد کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔میں نے جب یہ حالت دیکھی تو ماجرا جاننا چاہا تب وہ بات پتا چلی جسے کے لئے اوپر کی تمام سطور آپ قارعین کے گوش گزار کی ہیں اور جو اس ساری تحریر کا لب لباب ہے۔میں نے آپکو بتایا تھا کہ خالہ کی ایک بیٹی بھی ہے جو کہ شادی شدہ تھی جس بندے سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ خالہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور دونوں کی پسند کی شادی تھی جسے خاندان کی سند قبولیت بھی حاصل تھی یوں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب شادی تھی اور دونوں میاں بیوی نے پچھلے تین سالوں میں یہ بات ثابت بھی کر دی کہ وہ دونوں ایک کامیاب شادی شدہ جوڑا ہیں۔ دونوں ہی میں بڑا پیار تھا اور پھر خالہ سکینہ کے داماد  مراد نے اپنی بیوی کے لئے گھر بھی علیحدہ لیا تھا تا کہ اگر کبھی اس کی بیوی اور اس کے ماں باپ کے درمیاں کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کی بیوی کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے۔ پچھلے تین سالوں میں ان دونوں کے درمیاں کسی بھی قسم کا کوئی بھی جھگڑا سننے میں نہیں آیا یا کم از کم ایسا کوئی جھگڑا تو ہر گز ہرگز نہیں تھا جس سے نوبت یہاں تک آ پہنچتی۔سبھی حیران تھے کہ آخر مراد کو ایسا کیا ہوا ہے یا خالہ سکینہ کی بیٹی سے ایسی کیا غلطی سرزد ہو گئی کہ بات اتنی بڑھ گئی۔ میں نے ہجوم پہ ایک طائرانہ نظر دوڑائی تو مجھے ان میں خالہ کا بڑا بیٹا بھی نظر آ گیا جو ایک طرف کھڑا خاموشی سے اپنی بہن کے اجڑنے کا تماشا دیکھ رہا تھا۔میں اپنے دکھ کا اظہار کرنے اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔ تب اس نے مجھے وہ بات کہی جو ایسی کہانیوں کا انجام ہوتی ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ
۔" مجھے اپنے ماں کے دکھ پہ کوئی دکھ نہیں ہے لیکن اپنی بےقصور بہن کے اجڑنے کا بہت دکھ ہے۔میں مراد کو بھی برا بھلا نہیں کہوں گا کیوں کہ اسے واقعی میری بہن سے محبت تھی اور اس نے اپنے شوہر ہونے کے وہ سارے حقوق ادا کئے جو کوئی بھی اچھا شوہر ادا کرے گا۔  دل بھر گیا ہے میرا ۔۔۔ یہ الفاظ تھے مراد کے جب اس نے میری بہن کو طلاق دی ۔کیا کبھی آپ نے کسی ایسے بندے کے منہ سے اپنی اس بیوی کے لئے ایسے الفاظ سنے ہیں جس سے اس نے پسند کی شادی کی ہو پھر اسے عزت اور محبت سے رکھا ہو ، دیوانوں کی طرح اسے پیار کرتا ہوں اور پھر بس تین ہی سالوں میں اس کا جی بھر جائے ایسا کبھی سنا ہے آپ نے۔یقینا نہیں سنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے دل کے اوپر سیاہ دھبے بن گئے تھے جنہوں نے اس کے دل سے میری بہن کی محبت کو نکال باہر کیا اور یہ سیاہ دھبے پتا ہے کیا ہیں۔۔۔ یہ میری ماں کی وہ چغلیاں ہیں جو وہ گھر گھر جا کر لگاتی تھی۔ اس کی نظر میں کسی کی عزت و حمیت کا کوئی خیال نہیں تھا تو پھر قدرت اس کی عزت و حمیت کا خیال کیسےکرے گی"۔
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.