Unknown
جنگل کا باشاہ شیر حسب دستور دربار لگائے انتہائی طمطراق سے اپنے تخت پہ جلوہ افروز تھا۔ وزیران و مشیران کا ایک جمگھٹا بادشاہ سلامت کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ جنگل کے عمومی و خصوصی مسائل زیر بحث تھے کہ اچانک داروغہ دربار نے کسی بندر کے آنے کی اطلاع دی۔بادشاہ کے وزراء نے ایک اجتماعی ناگوای سے داروغہ دربار کو دیکھا۔ انہیں شاید اس ناعاقبت اندیش کی یہ ادا بری لگی تھی کہ وہ سب انتہائی اہم معاملات پہ غوروفکر میں مصروف تھے جبکہ داروغہ کو ایک بندر کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ تاہم بادشاہ سلامت کے روبرو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے سارے چپ ہی رہے۔
۔"کون ہے وہ اور کیا چاہتا ہے"۔ شیر  یعنی بادشاہ سلامت نے انتہائی سخت گرجدار آواز میں پوچھا
۔"جناب انتہائی خستہ حال ایک غریب بندر ہے کسی معاملے میں بادشاہ سلامت کی مدد مانگنے آیا ہے"۔ داروغہ نے انتہائی ادب سے گوش گزار کیا
۔"لیکن تمہیں پتا نہیں تھا کہ ہم انتہائی اہم ملکی مشاورت میں مصروف ہیں تم نے اسے رفع دفع کر دینا تھا"۔ باشاہ کا ایک وزیر انتہائی نخوت سے بولا
۔"حضور بالکل معلوم تھا لیکن اس کی کیفیت و حالت دیکھ کر مجھے اس پہ ترس آ گیا اور اسے بے مراد بھیجنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ "۔ داروغہ دربار نے ایک بار پھر ادب سے جواب دیا
۔" ٹھیک ہے اندر بھیجو اسے لیکن اسے سمجھا دینا کہ ہمارا وقت کتنا قیمتی ہے (اور وہ کتنا بے قیمت ہے) بات مختصر اور جامع کرے تا کہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو"۔ بادشاہ سلامت نے گویا احسان عظیم کیا۔ داروغہ ادب سے سلام کہتا باہر نکل گیا اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ایک بندر انتہائی خستہ حالت، بکھرےبال اور پریشان چہرے کے ساتھ دربار عالی میں حاضر ہو۔ اس کے چہرے اور لباس و حالت کو دیکھ کر تمام درباریوں کے چہروں پہ پڑا ناگواری کا احساس اور شدید ہو گیا۔ بادشاہ جو نووارد کو غور سے دیکھ رہا تھا انتہائی رعب و دبدبے سے گویا ہوا
۔" کہو کیا کہنا ہے اور یاد رکھو بات جامع اور مختصر ہو"۔
۔" حضور۔۔ میرا بھرا پرا خاندان ہے۔ اور ہم سب ایک ہی جگہ ایک ہی چھت تھلے انتہائی خوشی و راحت سے زندگی بسر کر رہے تھے ۔ سبھی خوش و خرم تھے اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد بھی کیا کرتے تھے ۔پھر اچانک یوں ہوا کہ ہمارے گھر کا سکون آہستہ آہستہ جانے لگا ایک عجیب سی سرد مہری دلوں میں آگئی۔ہمارے درمیاں بظاہر کوئی دشمنی نہیں ہے کوئی اختلاف نہیں ہے پھر بھی دل ایک دوسرے سے بیزار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بڑی کوشش کی کہ اس منفی پہلو کی وجہ کا پتا لگایا جا سکے لیکن ہم سب ناکام رہے آخر مجبورا میں حضور کی خدمت اقدس میں یہ درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آپ اپنی طاقت و عقلمندی اور دور اندیشی سے اس معاملہ کا کوئی حل نکالیں تا کہ ہمارے گھر کا سکون دوبارہ بحال ہو سکے"۔ بندر کا دکھ اس کے لہجے سےعیاں تھا۔ اپنی تکلیف بادشاہ سلامت کے حضور گوش گزار کرنے کے بعد وہ نہایت امید  بھری نظروں سے بادشاہ سلامت کی طرف دیکھنے لگا۔بادشاہ سلامت کچھ دیر تو معاملے کو سمجھنے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے اور جب کوئی بات پلے نہ پڑی تو اس معاملے کو وزیر باتدبیر کے سپرد کرنے کا سوچا۔
۔"وزیر محترم "۔
۔" جی حضور"۔ وزیر اعظم دست بدستہ کھڑے ہو گئے۔
۔" آپ ایسا کریں ایک کمیشن بنائیں جو معاملے کے تمام پہلوؤں کی مکمل چھان بین کرے اور پھر ایک تفصیلی رپورٹ آپ کے گوش گزار کرے تا کہ اس غریب بندر کے مسئلے کا مناسب حل نکالا جا سکے"۔
۔" بہت اچھا اور عمدہ خیال ہے حضور کا اس سے نہ صرف پورا مسئلہ سامنے آ جائے گا بلکہ اس کے تکمیلی حل کے لئے مناسب اقدامات کرنے میں بھی آسانی رہے گی"۔ خوشامدی ٹولے نے اپنے کام کا آغاز کیا
 باشاہ سلامت کے حکم کے مطابق ایک کمیشن کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا۔وزیر باتدبیر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے چچیرے بھائی کے بیٹے کو اس  کمیشن کا سربراہ مقرر کیا اب باری تھی ممبران کی تشکیل کی تو یہ معاملہ کچھ یوں ترتیب پایا کہ اہل دربار میں سے جو حضرات صاحب حیثیت تھے اور وزیر با تدبیر کی خوب خاطر تواضع کی اہلیت رکھتے تھے ان کے مشورہ خاص سے ممبران کا چناؤ کیا گیا اور یوں پندرہ ممبران پہ مشتمل کمیشن کی تشکیل کا یہ پہلا مرحلہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔
اگلے دن پندرہ ممبران پہ مشتمل یہ کمیشن متاثرہ بندر کے گھر تحقیق و تفتیش کے لئے پہنچ گیا۔ بندروں کے خاندان نے ان کی خوب خاطر طواضع کی کہ وہ انہیں اپنا مسیحا سمجھ رہے تھے۔ حتیُ المقدور فیض یاب ہونے کے بعد کمیشن نے ایک لمبا سلسلہ سوالات و جوابات شروع کیا اور کافی دیر کی بحث و تمحیص کے بعد وہاں سے بغیر کسی انجام تک پہنچے روانہ ہو گیا۔ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا لیکن حل تھا کہ ندارد۔ جب بندروں نے یہ دیکھا تو مایوسی کے ساتھ ساتھ ان کی الجھن بھی بڑھنے لگی۔ حتیٰ کہ بات تلخ کلامی تک آ پہنچی۔ جب بوڑھے بندر نے یہ حالت دیکھی کہ کمیشن کے آنے سے بجائے پہلے مسئلے کے حل کے مذید مسئلوں نے جنم لینا شروع کر دیا تو وہ ایک بار پھر بادشاہ سلامت کے دربار میں حاضر خدمت ہوا۔
۔" تمہارے مسئلے کا کیا ہوا "۔ بادشاہ نے جب بندر کو سرجھکائے اپنے سامنے دیکھا تو رعب سےگویا ہوا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے لیکن حضور میرا مسئلہ بجائے سلجھنے کے مذید الجھ گیا ہے"۔ بوڑھے بندر نے ڈرتے ڈرتے عرض کی اور پھر بادشاہ سلامت کو متوجہ پا کر سارا ماجرہ گوش گزار کر دیا
۔" وزیر با تدبیر یہ بندر کیا کہ رہا ہے۔ اس کا مسئلہ ابھی تک کیوں حل نہیں ہوا"۔ بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے توجیہ مانگی
۔" حضور ہم نے سلظنت کے قابل ترین جانوروں کا انتخاب کیا تھا لیکن لگتاہے بندر کا مسئلہ زیادہ گھمبیر اور توجہ طلب ہے"۔ وزیر نے ادب سے عرض کی جس پہ بادشاہ سلامت نے ایک لمبی سی "ہوں" بھری اور کچھ دیر متفکر نظروں سے بندر کو گھورنے  کے بعد یکدم اپنے تخت سے کھڑے ہو گئے۔
۔" ہمیں اپنے وزیر با تدبیر کی بات سے مکمل اتفاق ہے اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب کی بار دو نئے کمیشن بنائے جائیں ایک کمیشن پہلے کمیشن کے ساتھ ملکر مسئلے کی نوعیت اور اس کا حل نکالے گا اور دوسرا کمیشن ان دونوں کمیشن کی کارکردگی پہ نظر رکھے گا"۔ چاروں طرف سے بادشاہ کی دانائی و عقلمندی کے نعرے بلند ہوئے جب کہ بوڑھے بندر کے چہرے پہ چھائے تفکر کے سائے مذید گہرے ہو گئے۔
ایک بار پھر وہی صبح شام کا چکر اور وہی بندروں کی عرق ریزی سے کی گئی خاطرتواضع اور وہی بغیر کسی انجام کے کام۔ بندروں نے اچھے دنوں میں جو جوڑرکھا تھا وہ سب کمیشنوں کی خاطر تواضع میں خرچ ہو گیا یہاں تک کہ جب نوبت خود کے فاقوں اور کمیشن کے نا ختم ہونے والے تقاضوں تک جا پہنچی تو اس بوڑھے بندر کو ایک دفعہ پھر بادشاہ سلامت کے حضور حاضر ہونا پڑا
۔" حضور کا اقبال بلند رہے۔ حضورعالی مقام میری قوم اب فاقہ کشی کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے اور حضور کے بنائے گئے کمیشن تاحال کسی بھی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں"۔ بندر نے کانپتے لہجے کے ساتھ اپنا معاملہ بادشاہ سلامت کے گوش گزار کیا
۔" تم ہوش میں تو ہو  پتاہے کیا کہ رہے ہو اور کس کے سامنے کہ رہے ہو"۔ وزیر نے بادشاہ کے بولنے سے پہلے ہی بوڑھے بندر کی بات اچک لی۔ "حضور مجھےتو یہ بوڑھا بندر انتہائی مکار اور چالاک لگتاہے ۔اس نے ہمیں صرف الجھانے اور مملکت کے امور سرانجام دینے سے روکنے کے لئے یہ چال چلی ہے ۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں" ۔ بوڑھا بندر یہ کایا پلٹ دیکھ کر حیران رہ گیا اس سے پہلے کہ وہ اپنے تحفظ میں کچھ کہتا کہ بادشاہ سلامت کی گرجدار آواز سنائی دی
۔"اس بوڑھے بندر کو گرفتار کر لو اور ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھاؤ ۔ اگر وزیر با تدبیر کی بات سچ ثابت ہوئی تو اسے سر عام پھانسی دی جائے گی"۔چنانچہ ایک اور کمیشن ترتیب دیا گیا جس نےاس بات کی تحقیق کرنا تھی کہ آیا بندر کو حقیقتا مسئلہ درپیش تھا کہ نہیں۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلے نے وجود لیا کسی کو بھی اب یہ یاد ہی نہیں تھا کہ اصل مسئلہ کیا تھا اور کہاں سے شروع ہوا۔ چنانچہ نیا وجود پانے والے کمیشن نے قید خانے کا رخ کیا جہاں بوڑھا بندر قید تھا۔ جب معاملہ بوڑھے بندر کے سامنے آیا تو اس نے یکلخت مکمل چپ سادھ لی بہت کوشش کی گئی کہ وہ کچھ بولے لیکن بندر ہنوز خاموش رہا ۔ آخر اسے قصور وار گردانتے ہوئے اسے سرعام پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔
اس بوڑھے بندر کی قوم کے سارے بندر اس دن سے خاموش ہیں۔کمیشن پہ کمیشن بنتے جارہے ہیں اور بندر سرعام پھانسی چڑھتے جا رہے ہیں لیکن کوئی کچھ بولنے کو تیار ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ نجانے کیوں؟۔
0 Responses

ایک تبصرہ شائع کریں

بیاض مجنوں 2012. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.